پاکستانی بچوں کی ساہنسی تعلیم نہ حاصل کرنے کی اہم وجہ۔۔إ

Posted on at


پاکستانی بچوں کی ساہنسی تعلیم نہ حاصل کرنے کی اہم وجہ۔۔إ 

میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کتابیں جمع کر رہا ہوں۔ اردو کتابیں تو انگریزی کتابوں سے بھی زیادہ کشش سے عاری ہیں۔ یہ کتابیں پنجاب اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈز کی تیار کردہ ہیں۔ مطبوعہ کتابوں کی تعداد اب کروڑوں تک پہنچ گہی ہے۔ یہ کتابیں اس رویے کی عکاسی کرتی ہیں کہ ساہنس کی تعلیم جغرافیہ یا تاریخ جیسی ہے۔




 ہر سرورق کے اندر کی جانب قاہداعظم کی کڑی نگاہیں طلبہ کو فہماہش کررہی ہوتی ہیں کہ پڑھو ورنہ ً ہم  صفحہ ہستی سے مٹ جاہیں گے ً۔ لیکن ڈراوا۔۔۔۔ یا یہ  نصیحت کہ آخرت میں بہتر انجام کیلیے علم کا حصول مقدس فریضہ ہے۔۔ فضول ہے۔ ان چیزوں سے اس مضمون میں کبھی دلچسپی پیدا نہیں ہو سکتی جو انسانی تجسس سے تحریک پاتا ہے۔
 مقامی کتابیں تجسس کی حس کو پروان چڑھانے کے بجاہے اسے ختم کرتی ہیں۔ ریاضی چند بے مقصد و معنی مشقوں تک محدود ہے جبکہ طبیعات، کیمیا اور حیاتات میں صرف فارمولے اور شکلیں رٹاہی جاتی ہیں۔ یہ کتابیں چاہے خود لکی گہی ہوں یا ادھر ادھر سے ٹکڑے جوڑ کر تیار کی گھی ہوں ان سے کوہی اشارہ نہیں ملتا کہ انسانی محنت اور ذہانت کے نتیجے میں مسلسل علم کی تخلیق ہو رہی ہے۔


 



 


یہ کتابیں شروع سے آخر تک ناقص علم تدریس کا نمونہ ہیں۔ مثال کے طور پر سطحی تناؤ کی وضاحت اس بے تکے انداز میں کی گہی ہے ً سطحی تناؤ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ سالمات کی کشش سے ماہع کی سطح پر ایک جھلی بن جاتی ہےً۔ کسی نے آج تک ننگی آنکھ سے سالمہ نہیں دیکھا، چہ جاہیکہ ایک سالمے کو دوسرے کو کھینچتے ہوہے دیکھنا۔ اس طرح پڑھنے والا طالب علم کچھ بھی نہیں سیکھے گا۔




 ایک اچھا طریقہ یہ ہوگا کہ طالب علم سے ٹھرے ہوہے پانی کی سطح پر آہستہ سے ریزر بلیڈ رکھنے کو کہا جاہے۔ ریزر بلیڈ سطح پر کیوں تیرتا ہے؟ پھر طالب علم کو یہ نتیجہ نکالنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ کوہی غیر مرھی جھلی ہے۔ ماہع  صابن کا ایک خطرہ اس جحلی کو مزید باریک کر دیتا ہے اور بلیڈ دوب جاتا ہے۔ اس طریقہ سے طالب علم ایک منطقی عمل کے زریعے مظاہر کی با معنی تفہیم کرسکتا ہے۔


 



 جن کتابوں کا میں نے جاہزہ لیا ہے ان کا کمزور ترین حصہ باب کے آخر میں دیے گیے سوالات اور مشقیں ہیں جو کہ حافظے کی فضول مشقیں ہیں۔ مصنفین کو پتہ نہیں کہ ساہنس کی روح مساہل کا حل کرنا ہے اور اچھی ساہنسی تربیت طالب علم میں یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ جو نہے اصول سیکھے انہیں اپنے شعور کا حصہ بنا لے اور ان مساہل پر اطلاق کر سکے جن کے جوابات ابھی تک نامعلوم ہیں۔ اس کے مقابلے میں بیرون ملک میں لکھی گہی ًاوً لیول کی کتابوں میں، جو اعلٰی پاکستانی اسکولوں کے بہت تھوڑے سے طلبہ استعمال کرتے ہیں، عمومٲ اچھے سوالات ہوتے ہیں۔




ایک چھوٹا سا مثبت پہلو بھی ضرور سامنے آیا ہے۔ وہ یہ کہ پچھلی نصابی کتابوں کے مقابلے میں نہی کتابوں میں تصورات کی غلطیاں کم ہیں۔ اس کے علاوہ بہتر طباعت اور رنگین تصویروں کا استعمال بھی وقت کے ساتھ بڑھ گیا ہے۔ لیکن پہلے کی طرح اب بھی، بہت سے حقاہق کو اکٹھا کردینے سے نوخیز ذہنوں کا تخیل بیدار نہیں ہو سکتا۔     



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160