طلاق ایک معاشرتی المیہ

Posted on at


               

طلاق ایک ایسا معاشرتی المیہ ھے جسے بھلانا ناممکن ھے۔ یہ جسم پر لگے اس ناسور کی طرح ھے جو ھر وقت رِستا رہتا ھے اور بہت زیادہ تکلیف دیتا ھے۔ یہ صدمہ بھلائے نہیں بھولتا۔ لوگوں کے بہت تکلیف دہ رویے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اُس وقت زندگی بوجھ محسوس ھونے لگتی ھے جب سگے بہن بھا ئیوں کے رویے ایسے ھو جاتے ہیں جس کا ھم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اُس وقت زندگی سے بھی نفرت محسوس ھونے لگتی ھے۔ غرض زندگی کے معنی ھی بدل جاتے ہیں۔ لوگوں کے شدید الفاظ ھماری روح تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔

شادی عمر بھر کا سنجوگ ھوتی ھے اسے بہ خوبی نبھانا عورت کا ھی نہیں مرد کا بھی فرض ھے۔ ایک گھر کو سجانے سنوارنے کے لئے ایک سلیقہ مند عورت ھی نہیں ایک خیال رکھنے والا شوہر بھی ضروری ھوتا ھے۔ ایک عورت جس شخص کے ساتھ مرنے جینے کا وعدہ کرتی ھےھر وقت اُس شخص کے حوالے سے خوبصوررت سپنے سجاتی ھے۔ جب اُسی شخص کی طرف سے اسے طلاق جیسا تحفہ ملتا ھے تو یہ تحفہ اس عورت کے لئے کسی موت کے پیغام سے کم نہیں ھوتا۔

مرد کی تمام تر توجہ، محبت، چاہت ایک عورت کی زندگی بنانے کےلئے کافی ھوتی ھے۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے مرد کا بھی مستقل مزاج اور بہادر ھونا نہایت ضروری ھے۔ مرد کے اندر اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے گزارنے اور زندگی کے اہم فیصلے خود کرنے کی جراؑت و ہمت ھونی چاہئیے۔

ہمیں اپنے اردگرد ایسے ہزاروں واقعات دیکھنے سننے کو ملتے ہیں جہاں مردوں نے اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ مرد یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک لڑکی اُس کے لیے اپنا پورا خاندان چھوڑ کر آئی ھے۔ صرف اُسی کے لئے اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے پیاروں کو الوداع کہہ کر اُسکے سنگ رخصت ھوئی ھے۔ اب وہ عورت اس مرد کی بے پناہ توجہ، پیار اور چاہت کی مستحق ھے۔

لیکن نہیں

بعض مردبہت زیادہ خود غرض ھوتے ہیں جو دوسروں کے کہنے میں آکر اپنی بے پناہ پیار کرنے والی بیوی کو طلاق دے بیٹھتے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ عورت اپنی زندگی کی تمام خوشیاں اسی کے نام سے منسوب کئے ھوئے تھی۔ مردوعورت گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ھوتے ہیں ایک کے بنا دوسرا ادھورا ھے۔ان کے درمیان سچی محبت ھی شادی کو کامیاب بناتی ھے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے فرائض سے غافل ھو جائے تو زندگی کی گاڑی کا چلنا مشکل ھو جاتا ھے۔

مردوعورت دونوں کو سمجھوتہ کر کے زندگی میں آنے والے ھر دکھ اور پریشانی پر صبر سے کام لینا چاہیئے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا چاہیئے۔ فراخدلی سے ایک دوسرے کی اچھائی کو بیان کرنا چاہیئے۔

مگریہ ھمارے معاشرے کا بد ترین المیہ ھے کہ ہمیشہ عورت کو ھی قصوروار ٹھہرایا جاتا ھے۔ گھر ٹوٹنے کی ذمہ داری عورت پر عائد کرنا تو ایسا ھی ھے جیسے ایک مالی اپنے باغ کو سجانے سنوارنے پر سخت محنت کرتا ھے مگر تیز آندھی اسکے باغ کو اجاڑ دیتی ھے اور ھم باغ اجڑنے کی ذمہ داری مالی پر عائد کر دیتے ہیں۔ زندگی کی تلخ سچائیوں کو اپنا لینا ھی دانشمندی ھے۔ معاشرے کے تلخ رویوں کو بھلا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں۔



About the author

160