کشمیر کی ان کہی کہانی

Posted on at


 

یہ ٩٠ کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان کے نیشنل چینل پی ٹی وی سے ہر روز شام ٦بَجے ایک پروگرام لگا کرتا تھا جس میں کشمیر کے لوگوں کی تکلیفوں اور پریشانیوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا. یہ پاکستانیوں کے پاس واحد ذریعہ تھا جس کی بدولت وہ اپنے کشمری بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہو سکتے تھے. میرے خیال سے میں ٥ سال کی تھی جب میں نے پہلی بار کشیری گانا "میرے وطن تیری جنت میں ہے گے ایک  دن" سنا اس گانے سے پہلی بار میرا کشمریوں کے جذبات اور ان سے تعارف ہوا.

کشمیری پہلی دفعہ  ١٩٤٧ میں ظلم سے آشنا ہوئے جب اس وقت کے کشمیری راجہ "ہری سنگھ " نے اس وقت ہجوم پر گولیاں چلا دی جب وہ کشمیر کو انڈیا کا حصہ بناے جانے پر احتجاج کر رہے تھے. اس واقعے کے بعد کشمیریوں نے جو اپنے عزیز کھو چکے تھے نے پورے کشمیر کو اگ کی لپٹوں کے نذر کر دیا اور ہری سنگھ نے انڈین فوج کی مادہ مانگ لی تب سے لے کر آج تک روز کشمیر میں  ظلم اور جبر کی ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے. ٦٧ سال سے آج تک کوئی نہی جانتا  کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہیں . کوئی اصل حقیقت نہیں جانتا کہ آج تک نہ جانے کتنے کشمیری گولیوں کی نذر ہو گئے ہیں . روز کتنے کشمیری مسنگ پرسن لسٹ کی زینت بن رہے ہیں . آج تک کتنے عزیز ، رشتےدار، مانیں ، بہنیں اپنے پیاروں کا انتظار کر رہی ہیں.  روز کشیمر کی نہیں نسل وادیوں کو قبرستان بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں پر پھر بھی ان کے دلوں میں آزادی کا جذبہ زندہ ہے اور آج بھی وہ آزادی کے لئے ہر ستم اٹھانے کو تیار ہے اور آج بھی ان کی ہمت نہیں ٹوٹی.

کشمیر کی غلامی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے نام پر ایک دھبہ ہے. بھارت کشمیر میں ہونے والے ہر ظلم و ستم کی کہانی کو نہیں مانتا اور اس کا دعوا  ہے کہ کشمیر بھارت کے ساتھ خوش ہے اور اس نے آج تک کبھی بھی آزادی کی بات نہیں کی. اگر یہ سچ ہے تو پھر کشمیر میں دنیا  کی سب سے زیادہ فوج کیوں  ہے؟ وہاں  پر  ٧٠٠٠٠٠٠ فوجی کیا کر رہے ہیں؟؟ اس سب کا سوال ٢٠١١ میں کیے گئے بی بی سی کے سروے نے  سامنے لا دی  سروے کے مطابق کشمیر کی ٥٦ % عوام آزادی چاہتے ہے ٤١% عوام کشمیر کو پاکستان کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں باقی کی عوام چین  کے ساتھ کشمیر کو دیکھنا چاہتے ہے اور صرف ایک فیصد کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں. بی بی سی کے رپورٹر نے سوتک بسواس نے کہی کشمیریوں کے انٹرویو لئے ٢٤ سالہ کشمیری طالب علم جو کے کچھ دیر پہلے ہی  اپنے ایک دوست کو دفنا کر آیا تھا انٹرویو دیتے ہوئے بولا " ہمیں آزادی چاہیے" " کوئی نہیں جانتا ہمارے لئے آزادی کی اہمیت کیا ہے ہم نہیں جانتے آیا کہ ہم زندہ رہے گے بھی  یا نہیں پر ہم صرف اتنا جانتے ہے کہ ہمے بھارت اور پاکستان دونوں سے آزادی چاہے"  حلال احمد ایک اور کشمیری جو کہ ایک بنکر کے طور پر کام کرتے ہے نے بولا کہ " بھارت اپنے اپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے پر ہمیں نہیں لگتا ہمارے لئے ایک کشمیری ہونا بری بات ہے ایک  مسلمان ہونا جرم ہیں  بھارت ہم پر بس ایک احسان کر دے کہ ہمر زندگیوں میں سے نکل  جائے اور ہمیں آزاد کر دے"

سیاح خاص طور پر صحافیوں کا کشمیر میں داخلہ بند ہے  . امریکی صحافی ڈیوڈ براسمین کو بھارت چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا صرف اس وجہ سے کہ اس نے کشمیر کے لوگوں پر ڈوکمنٹری  بنایی اور وہ دنیا کے سامنے سب سے بڑی جموہریت کا اصل چہرہ لانے میں کامیاب ہو گیا تھا اپنے تجربے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ سرینگر میں داخل ہوتے ہی اسے فوج کی طرف سے پیغام آیا کہ" وہ اس کے بارے میں جانتے ہیں اور وہ اس پر نظر  رکھ رہے ہے" پراس نے اپنی ہمت اکھٹی کی اور لوگوں کا انٹرویو لیا . ١٢ سالہ لڑکے ساحل جس کے ابو کو کچھ سال پہلے بھارتی فوجی لے گئے تھے نے کہا " ہمیں  صرف بھارت سے آزادی چاہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن کشمیر آزاد ہو گا"

ڈیوڈ نے پرویز نامی شخص جو کہ ہیومن آرگنائزیشن کے ساتھ کام کر رہا تھا نے بتایا کہ کشمیر  میں ٢٠ سالوں میں تقریبا ٧٠ ہزار لوگوں کو موت کی وادی میں بھجا گیا.اور تقریبا ٨٠ ہزار دستاویزات گم ہوئی. اس نے انٹرویو میں بتایا کشمیر میں بھارت کا سب سے آسان هتھیار ظلم ہے کشمیر کے ہر گاؤں میں ہزروں لوگوں پر تشدد  کیا گیا ہیں اس میں عورتیں بوڑھے سب شامل ہے  کشمیر میں گوتنامو کی طرز کے کہی قید خانے موجود ہے جہاں ہر روز ظلم کی داستان رقم کی جاتی ہے



About the author

160