بلوچستان۔۔۔۔۔ موجودہ صورتحال میں سرداری نظام

Posted on at


سرداروں کے کردار اور سرداری ادارے کی تاریخ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔کہ چند استثنیٰ کے سوا بلوچستان کے نواب،سردار،ملک،وڈیرے اور ٹکری حکومت سے لے کر آج تک ہر حکمران کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انکی فرمانبرداری،جی حضوری اور اطاعت گزاری کرتے رہے ہیں۔ جس کے باعث سرداری کے ادارے کا اصل تاریخی اور حقیقی وجود خارجی اثرات اور مفادات کے تحت معدوم ہو کر رہ گیا۔ آج سردار کا وجود درحقیقت محض انتطامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کارہین منت ہے۔جو ہدایات انکو انکے حقیقی مالکوں کی جانب سے ملتی ہیں۔ وہ اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ میر ظفر خان اللہ جمالی نے دسمبر ۱۹۸۸ میں صوبائی اسمبلی توڑے جانے کے بعد خود کہا تھا مجھے اسمبلی توڑ دینے کی باقاعدہ ہدایت ملی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۹۰ کے انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد میر تاج محمد جمالی نے ملکی پریس کے سامنے اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے خواب و خیال میں بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ بننے کا نہیں سوچا تھا۔ نہ انہیں انکی پارٹی نے یہ عہدہ دیا ہے۔ انہیں تو بس ایک خفیہ ادارے کے طفیل وزارت اعلیٰ ملی ہے۔ اسکے بعد ایسی ہی بات مینگل قبیلے کے میر نصیر مینگل کے سلسلے میں ہوئی۔ جنرل ضیاکے دور میں سردار مینگل کی نشست پر میر نصیر مینگل کو سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود ہر قانون اور ظابطے کو بالاۓ طاق رکھ کر ۱۹۸۵

کے غیر جماعتی انتخاب میں کامیاب قرار دے کر انکو صوبائی وزیر بنا دیا گیا۔

 پھر جتوئی کے نگراں حکومت کے دور میں انکو وفاقی نگراں کابینہ میں شامل کیا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرداری نظام کے خلاف شدت کے ساتھ نعرے لگانے والے بیشتر افراد کچھ عرصہ بعد خود ہی سرداری صفوں کا حصہ بن گئے۔ سردار اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے۔ اور سیاسی عمل میں حصہ لینا اسکا آئینی حق ہے۔ بلوچستان میں اسلحہ کی وافر مقدار اور نمائش نے صوبے کو امن وامان کی صورتحال کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ہر سردار کے لشکر اس طرح دکھائی دیتے ہیں۔ جسطرح قارون وسطیٰ میں مسلح قبائلی جتھے ہر سمت لوٹ مار کی خاطر دندناتے پھرتے تھے۔ اب تو قبائلی سرداروں کے علاوہ سیاسی سرداروں نے بھی اپنے لیئے مسلح جتھے بھرتی کر رکھے ہیں۔ جن کے پاس سواۓ ٹینک کے باقی ہر اسلحہ موجود ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی اور چیکنگ کا یہ حال ہے کہ وہ رکشہ اور اکا دکا گاڑیوں کو تو روک کر ان میں چاقو یا چھریاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب راکٹ لانچر اور مشین گنوں سے لیس گاڑیاں انکو نظر آ جاتی ہیں تو وہ ان کے لیئے راستہ کشادہ کر دیتے ہیں۔

 



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160