پڑھو گے لکھو گے ہو گے خراب۔۔۔۔

Posted on at


پڑھو گے لکھو گے ہو گے خراب۔۔۔۔



   خدایا کہاں آگیا ہوں۔۔إ ایک سرکاری اسکول میں داخل ہونے پر یہ میرا پہلا ردعمل تھا۔ اسکول کی حالت نہایت ہی بری اور خستہ تھی۔ صرف ١۴ کمروں میں ١۰۰۰ سے ذاہد طالب علم زیرتعلیم تھے۔ کلاس روم تاریک اور گندے تھے جن میں مکڑیاں اور ان کے جالے اور ٹوٹا ہوا کچھ فرنیچر موجود تھا۔ بیت الخلاء استعمال کے لاہق بھی نہیں تھا اور پراہمری سیکشن کے طلبہ کی سمجھ سے بھی باہر تھا کہ ضروری حاجات پوری کرنے کیلیے کیا کریں اور کہاں جاہیں۔؟  لڑکے بعض اوقات میں خالی بوتلیں استعمال کرتے تھےإ یہ سرکاری اسکولوں کی حالت زار ہے جنہیں توجہ کی شدید ضرورت ہے پر افسوس کہ توجہ ملتی نہیں۔




بعض سرکاری اسکول تو اس حالت زار کی وجہ سے چل ہی نہیں رہے اور صرف فاہلوں اور کاغزات پر ان کا وجود قاہم ہے اور جو اسکول کام کر رہے ہیں انہیں بھی مختلف مساہل کا شکار ہیں جو انفراسٹرکچر سے شروع ہوتے ہیں۔ حکومت کے پاس کوہی صیحح پالیسی نہیں جو اس امر کو یقینی بناہے کہ ہر اسکول میں بچوں کی تعداد کے لحاظ سے کافی کمرے ہوں۔ طلبہ کی تعداد مختلف ہے مثلٲ ٦۰۰ طلبہ کے ایک اسکول میں چار کمرے ہیں اس لیے آدھے سے زیادہ اسکول صحن میں بیٹھنا ہے اس میں چاہے سردیوں کی سخت بارش ہوتی ہے یا پھر گرمیوں کی کڑکتی اور سخت تیز دھوپ۔۔إ




گرمیاں تو اور بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہیں کیونکہ خستہ حال کمروں میں پنکھے نہیں ہوتے اور فرنیچر بھی نہ ہونے کی وجہ سے جب ان طلبہ کو فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے تو عزت نفس کا بنیادی حق بھی چھن جاتا ہے۔ کیرفاؤنڈیشن جیسا ادارہ کمروں، لاہبریریوں، بیت الخلاء اور ساہنس لیبارٹریوں کا انتظام کر کے حکومت کی مدد کرتا رہا ہے۔



اسکولوں کے اردگرد اور تعلیم کے ان مراکز کے عمارات کے اندر کھلی نالیاں اور کچرے کے ڈھیر ہیں سرکاری شعبہ سکون سے بیٹھا ہے اور اس حالت سے چھٹکارا دلانے یا بہتری کیلیے کوہی اقدامات نہیں کر رہا۔ اس پر مسزاد یہ کہ حکومت کی ترجیحات خاک روب کی فراہمی شامل نہیں۔

 


تدریسی جو کسی تعلیمی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے وہ بھی اس غفلت کا شکار ہو کر روبہ زوال ہے۔ نصابی کتابیں جو سرکاری اسکولوں کے بچوں کو امداد کی طرح مفت مہیا کی جاتی ہیں کبھی وقت پر نہیں پہنچتیں۔۔إ تعلیمی سال کے آغاز یعنی اپریل میں جب طلبہ کو ضرورت ہوتی ہے یہ کتابیں شاذونادر ہی پہنچتی ہیں اور بعض اوقاتفروخت ہونے کیلیے مارکیٹ چلی جاتی ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود حکومت اساتزہ کی بھرتی کیلیے بڑی مہم چلاتی رہی ہے اسکولوں میں اساتذہ کی طلب پوری نہیں ہوہی اور طالب علم و استاد کی شرح میں بے پناہ بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ مثلٲ ۹۰۰ طلبہ کے ایک ہاہی اسکول کے لیے صرف سات آٹھ اساتذہ ہیں۔ اس کے علاوہ جو سرکاری اساتزہ ہیں بھی ان کی مخصوص ذہنیت ہے وہ سرکاری ملازمین ہیں کہ انہیں پڑھانے کی ضرورت ہی نہیں اور انہیں ذندگی بھر کا روزگار فواہد کے ساتھ حاصل ہے۔




 تعلیم کے ان برادروں کو پڑھانے کی بجاہے جس کی تنخواہ پا رہے ہیں سردیوں میں سوہٹر بنتے ہوہے اور طلبات سے سبزیاں تیار کرواتے ہوہے دیکھ کر سخت تکلیف ہوتی ہے۔ تاہم نجی شعبے کا ادارہ کیرفاؤنڈیشن اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کیلیے کوشاں ہے اور جہاں ضرورت ہے یہ قیمتی اثاثہ فراہم کرنے کی جدوجہد کی جا رہی ہے۔  



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160