تلخ حقائق

Posted on at


تلخ حقائق


ایک مشہور کہاوت ہے جو انسان بوتا ہے وہ کاٹتا ہے۔  پاکستانی عوام میں تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور اور فکری بصارت سے حمکران طبقے نے خوب فائدہ اٹھایا آج کے دور میں اس بڑی کمی کی وجہ سے  اگر زیادہ نہیں تو دو بڑے معاشرتی طبقات تو  بن چکے ہیں جن میں ایک بہت بڑی خلیج ہے۔  اس کی ایک تازہ مثال دو دن پہلے شہر ایبٹ آباد کی تھی جہاں ملٹری کاکول ایکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی تھی۔ جس میں پاکستان کے وزیراعظم کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف اور اعلیٰ عہداران اور فوجی افسران اور ان کے عزیز ، اقارب و خاندان والوں نے شرکت کی۔  لیکن ان خاص افراد کے زبردست پرٹوکول کی وجہ سے سارے شہر میں ناکے لگا کے کاروبار زندگی کو مفلوج کر دیا گیا۔ قومی خزانے کو ایک طرف اعلیٰ پرٹوکول  سے چند لمحوں میں ہوا میں اڑا دیا گیا ، حسن آبدال سے ایبٹ آباد شہر تک  جگہ جگہ ان افسران کی سیکورٹی کے لئے گارڈ تعنیات کئے گئے تھے گویا کرفیو کا سماں پیدا کر دیا گیا ہو اور جرنیلوں اور وزیر اعظم  کے لئے ہیلی کاپڑ کا استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف عام لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے ، مفلوج کاروبار کا بھی نقصان دیا۔



 


ناجانے اس طرح کے کتنے  واقعات روزانہ ہی بڑے شہروں میں رونما ہوتے ہیں جہاں غریب ملک کے باسیوں کے خون پیسنے کی کمائی سے لئے گئے ٹیکسوں سے ان خاص و خاص لوگوں کو پرٹوکول دیا جاتا ہے۔  آج سے چند سال پہلے ہمارے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب ایک سرکاری دورے پر انگلستان گئے لیکن اس وقت برطانیہ کے وزیراعظم نے ٹھاٹ بھاٹ کے پرٹوکول کو نظر انداز کر کے اپنے ملک کے خارجہ امور کے سیکڑی کو ایئر پورٹ پر استقبال کے لئے بیھجا جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئ تو انہیں نے برمالا اور کھلم کھلا بے باکی سے جواب دیا کہ ہماری عوام ہم سے اپنے دیئے ہوئے ٹیکسوں کے مطالق پوچھتی ہے آیا اس کو کس چیز پر خرچ کیا گیا۔ برظانیہ کا شمار دنیا کی امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک میں صف اول کے ممالک میں ہوتا ہے اور ہمارا شمار دینا کے ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں بڑی اکثریت میں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ روزگار کی تلاش میں اپنا گھر بار چھوڑ کر بیرونی دنیا میں ذلت و رسوا ہو کر اپنے خاندانوں کے لئے زندگیاں گزار رہے ہیں۔  لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس چیز کی زرہ بھر پروا نہیں کرتا اور اس کی شاہ خرچیوں میں زرہ بھر کمی نہیں آتی۔



ان لوگوں نے ایسے کلچر کو فروغ دیا ہے  ایک شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ سرکاری طور پر ملے ہوئے پولیس اہلکاروں کے جھرمٹ میں وہ گھر یا دفتر سے نکلے تو سب سے پہلے اس کی حفاظت پر مامورسرکاری اہلکار اسے سلیوٹ کریں۔ حفاظت نہایت ضروری ہے ایم عہدوں پر تعینات اہم افراد چاہتے ہیں کہ ان کے گزرنے کے دوران سڑکیں بند ہوں سرکاری گاڑیوں کے ہوٹر بتا رہے ہوں کہ صاحب بہادر گزر رہے ہیں۔ عام لوگوں سے دور رہ  کر منفرد انداز میں گزریں۔ ان خاص لوگوں کے فروغ شدہ کلچر نے بڑے شہروں میں لوگوں کی زندگیوں کو عذاب مین مبتلا کر دیا ہے اور سڑکیں بند اور ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے۔



وفاقی وزراء زیادہ تر اپنے علاقوں تک ہی آتے جاتے ہیں لیکن ان کے ٹھاٹ بھاٹ کے دیکھوائے کی حرص اور شاندار دفتروں میں بیٹھ حکم چلانے اور افسران کو فون کرتےرہنے میں چانشنی ملتی ہے۔



ان سب باتوں نے ان وزراء کو اپنے علاقوں کے حقیقی مسائل سے غافل کر دیا ہے اور ان کے حلقہ انتخاب کے عام لوگ گھنٹوں ان کے دفتروں کے باہر ان حضرات سے ملنے کے لئے انتظار کرتے ہیں لیکن جب وزیر کے دفتر کے عملے سے صاحب کے فارغ ہونے کو پوچھےتو بتایا جاتا ہے صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں۔



دنیا کے کسی ملک میں پاکستان جیسا خاص لوگوں کے لئے مخصوص کلچر نہیں ہے۔ وزیر ہی کیا اب تو افسران بھی کئی کئی گاڑیوں کے پرٹوکول میں سفر کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے مملکت پاکستان کو صحیح معنوں میں جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے لئے اس کلچر کا خاتمہ ناگیز ہےجس کی وجہ سے پاکستان میں عام و خاص کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے


 


 


 



160