ان شاعروں میں مشہور شاعر خواجہ مسعود سعد سلمان بھی شامل ہے ان کا ثبوت محمدعدنی اور امیر خسرو کی کتابوں سے ملتا ہے مذکورہ بالاشاعروں کی زبان اپ بھرنش سے اخذ تھی اور غالبا لاہوری زبان کہلاتی تھی جب قطب الدین ایبک نے دہلی کو دار السلطنت بنایا یہاں کی زبان لاہوری کے بجائے دہلوی تھی دہلوی زبان بھرنش کی پیداوار تھی اور اس پر راجھستان اور برج بھاشا کا اثر تھا پنجاب سے مسلمان فارسی آمیز پنجابی بولتے ہوئے دہلی آئے دہلی میں اور اس کے آس پاس ان کی مڈبھیڑ کئی بولیوں سے ہوئی ان فارسی آمیز پنجابی زبان نے علاقائی بولیوں سے زیادہ اثر لیا دہلی بار بار ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ آباد ہوئی تھی ۔
شاہ جہاں کے وقت میں دہلی کئی میل ہٹ کر شمال میں بسی تھی ان آنے والوں کی بولی برج بھاشا تھی اس لئے بھرج بھاشا کا اثر اس نئی بولی پر زیادہ پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو سے پنجابی کا اثر روز بروز کم ہوتا گیا یہ نئی زبان فوجیوں کی آمد ورفت سے ہندستان کے گوشہ گوشہ میں پھیل رہی تھی دہلی کی مرکزیت اوراس کی تمدن کا اثر تمام ہندستان پر ہو رہا تھا اس نئی زبان کی مثال کبیرداس کی
کلام ہے کبیرداس کی کلام میں کھڑی بولی ، بھرج بھاشا، راجستھانی اور بھی کبھی پنجابی کے اثرات نمایاں ہیں غرض کہ اس نئی زبان یعنی اردو کا ارتقاء عوام کے ہاتھوں ہوتا رہا اس نئی زبان کی پیدائش کے بارے میں ڈاکٹر مسعود حسن نے کیا کثرت میں وحدت کا نقش ابھر رہا تھا مختصر یہ کہ اردو زبان نہ بھرج بھاشا سے بنی نہ پنجابی سے بلکہ مخلوط زبانوں سے متاثر ہو کر کھڑی بولی یہ اس نے اپنی بنیاد قائم کی اردو کی ارتقائی تاریخ سے متعلق کہانی کا مقصد یہ تھا کہ اس زبان کو اکثریت نے جنم دیا ۔
وادی سندھ اور گنگا ان کی جائے پیدائش ہے ایک ایسا بچہ جو ہماری گود میں پیدا ہو جائے اور اسے پھینک کر خواہ مخواہ یتیم بنائے تو کیا یہ انصاف ہے اردو زبان سے ہماری ثقافت وابستہ ہے ، ہماری تاریخ وابستہ ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے مذہب اسلام سے بھی اس کی وابستگی ہے ، انگریز مکاری سے برصغیر پاک و ہند میں داخل ہوئے انہوں نے مثبت سوچ سے برصغیر میں قدم نہیں رکھا وہ ایک فاتح قوم کی طرح یہاں آئے انہوں نے طاقت کا غلط استعمال کیا یہاں کے باسیوں پر مختلف قسم کے مظالم کئے ان مظالم کی تاریخ کا سب کو پتہ ہے ۔