!سوچ بدلیں قسمت بدلیں

Posted on at


انگریزی زبان کی ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ "ندی کے دوسرے کنارے پر اگی ہوئی گھاس ہمیشہ سر سبز ہی دکھائی دیتی ہے " یہ ضرب المثل طنزیہ طور پر کہی گیئ ہے اور یہ ان لوگوں کی اندرونی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان سے زیادہ خوش ہیں اور ان سے زیادہ آرام سے زندگی بتا رہے ہیں .ان کے پاس زندگی کی تمام تر سہولیات موجود ہیں جب کہ ہماری حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ دگرگوں ہوتی جا رہی ہے .مگر حقیقت اس کے بلکل برعکس ہوتی ہے .انسان کی زندگی میں قسمت یا مقدّر کا کردار ضرور موجود ہے مگر یہ قسمت انسان کی اپنی ہی محنت میں پوشیدہ ہوتی ہے .ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ جاۓ اور سوچنا شروع کر دے کہ میں ترقی کی بلندیوں پر پہنچ جاؤں گا تو ایسا کبھی نہیں ہوتا .صرف شیخ چلی کی مانند خواب دیکھنے سے کوئی کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک آپ اپنی زندگی کا مناسب لائحہ عمل طے نہیں کریں گے کوئی مقصد سامنے نہیں رکھیں گے اور اس مقصد کے حصول کے لئے محنت نہیں کریں گے تب تک کامیابی آپ کے دروازے پر کبھی دستک نہیں دے گی



 


جب کبھی ہم لوگوں کو زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا جب کبھی ہم کسی کام میں ناکام ہو جاتے ہیں تو فوری طور پر قسمت کا گلہ شروع کر دیتے ہیں حالاں کہ اس کی وجہ سواۓ اس کے اور کوئی نہیں ہوتی کہ ہم لوگ بنیادی طور پر کام چور واقع ہوتے ہیں محنت کرنے کو اپنا دل نہیں کرتا اور ناکامی کا سرا قسمت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے.اور سب سے بڑھ کے یہ کے ہم جب اپنی ناکامی کی داستان کسی اور کو دکھ بھرے انداز میں سناتے ہیں اور رو رو کر قسمت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو اگلا بندہ بھی اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے کیوں کہ کہاوت ہے کے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے .بجاۓ اس کے کہ ہم محنت کریں اپنی ناکامی سے سبق سیکھیں اور پہلے سے زیادہ توانانی کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے کو جٹ جائیں ہم اپنی ناکامی کا ہی رونا روتے رهتے ہیں  .یوں یہ تخریبی سوچ ہماری صلاحیتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے 



 


ایسی سوچ کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے . اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جاۓ تو ہزاروں ایسے لوگوں کی مثالیں ہم کو ملیں گی جن کی زندگی کا آغاز ایک چھوٹے سے نقطے سے ہوا مگر اپنی محنت اور کوشش سے انہوں نے ترقی کے آسمانوں  کو چھو لیا اور بعد میں انکی آپ بیتیوں نے تاریخ میں سنہرے ابواب کو جنم دیا .ایک اکیلا شخص اپنے خواب کی تعمیر کے لئے پورے برصغیر کے مسلمانوں کو اکھٹا کر لیتا ہے اور دوسرا ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب آنکھوں میں سجاۓ ١٧ ناکام حملے کرتا ہے مگر حوصلہ نہیں ہارتا .تاریخ شاہد ہے کے کامیابی ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کے قدم چومتی ہے ہے جو حوصلہ ہارنے کے مفہوم سے ہی نا آشنا ہوتے ہیں 



 


ایسے لوگوں میں اور ہم میں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لوگ کبھی زندگی سے ہار ماننے کا نہیں سوچتے تھے ،فارغ بیٹھ کر ترقی کے خواب نہیں دیکھتے تھے نہ ہی وقت کی تیزرفتاری سے خوف زدہ ہوتے تھے .زمانے کی مشکلات کو انہوں نے قبول کیا اور نا مساعد حالات کے باوجود ترقی کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وقت کی لگام انہی کے ہاتھ میں ہے .اور اگر وقت انسان کے ہاتھ میں ہو تو انسان بادشاہ بن جاۓ اور اگر انسان وقت کے ہاتھوں لگام بن جاۓ تو وقت کا دھارا انسان کو بے دریغ دوڑائے چلا جاتا ہے اور انسان روٹی ،کپڑا اور مکان کے چکر سے ہی نہیں نکل پاتا 



 


ہمارے یہاں یہ رواج عام ہے کہ لوگ اپنی ناکامی کا سرا دوسروں کے سر منڈھ دیتے ہیں اور ان کو مورد الزام ٹھہراتے اور برا بھلا کہتے ہیں مگر ایسا کرنے سے نہ آپکی غربت دور ہوگی اور نہ آپ کے حالات ہی بدلیں گے .کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ آپکی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نا امید ہو جائیں .اپنے آپ کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور مزید منصوبہ بندی کے ساتھ کامیابی کے نئے نئے راستے تلاش کریں .آپ کے برا کہنے سے کوئی شخص برا نہیں بن جاتا مگر کبھی آپ کے چند تعریفی کلمات کسی شخص کو عمر بھر کے لئے آپ کا شکر گزار ضرور بنا سکتے ہیں 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160