ملالہ کون ہے۔۔۔؟

Posted on at


ملالہ کون ہے۔۔۔؟


 ملالہ کون ہے اور اس نے کن خطرات میں اپنی جرات اور زہانت کا پرپم بلند کیا۔۔؟


 

گزشتہ سال ۹ اکتوبر ۲۰١۲ کو جب وہ مینگورہ میں اپنے اسکول کی بس میں گھر واپس جارہی تھی تو کچھ انتہا پسندوں نے اس کے سر میں گولی مار کر اسے قتل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ملالہ کا اس حادثے سے بچ جانا ایک موجزہ تھا۔ اور شاہد یہ قدرت کا ہی ایک اشارہ تھا کہ پاکستان میں  زندگی اور نموکی قوت، موت اور تباہی کی یلغار کو روک سکتی ہے۔ یہ سوچ کر بھی دل ڈرتا ہے کہ ملالہ پر حملے کے بعد، انتہا پسندی کے ردعمل اور حکمرانوں کی بظاہر بے بسی کے کیا نتاہج نکل سکتے ہیں۔۔۔۔


 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملالہ کے واقعے نے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اس قدر کیوں نہیں جھنجھوڑا کہ وہ ایک انقلابی جزبے کے ساتھ ملالہ کی جنگ میں شامل ہو جاتے۔ انتہا پسندوں اور ان کی سوچ سے نبٹنے کے لیے کہی سطحوں پر ایک فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کرتے۔
 یہ سچ ہے کہ ملالہ کو خراج تحسین پیش کرنے میں دیر نہیں لگاہی گہی۔

اس کی جرات کو سراہا گیا۔ قومی اداروں نے خاص طور پر اس کے علاج کے لیے بروقت اقدامات کیے۔ ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک تک لے جایا گیا۔ لیکن ان سب تمام باتوں کے علاوہ ملالہ وہ سیمبل نہیں بن پاہی کہ جس کا اس کو حق تھا۔ دنیا بھر میں اس کی جس طرح عزت کی گہی اس کی بازگشت اس کے اپنے ملک میں سناہی نہیں دی۔ میڈیا میں مزہبی عناصر نے، اس پر حملے کی مزحمت کے پردے میں، سارے واقعہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی اور حکمراں سیاست داں ایک دفعہ پھر جیسے ڈر گیے۔

ہم اپنی توجہ اگر تعلیم ہی پر مرکوز رکھیں تب بھی حکمرانوں کی یہ کمزوری ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے ٹکرانے کیلیے تیار نہیں، ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ملک میں تعلیم اور کے فروغ کے راستے میں یہ انتہا پسندی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے ہوتے ہوہے پاکستان تعلیم میں کبھی پاس نہیں ہو سکتا۔ ایک بار پھر میں ملالہ کی مثال کی معونیت پر زور دینا چاہتا ہوں۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اس کے اپنے کالج کا نام اس کے اپنے نام پر نہیں رکھا جاسکتا۔


 مجھے احساس تھا کہ ً گریٹ ڈیبیٹ ً میں سیاسی رہنما اس کا نام لیں گے۔۔۔ ایک ایسی روشنی کی طرف اشارہ کریں گے جو اس ملک کے ایک اچھے مستقبل کا پیغام بن سکتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستانی قیادت کا زہن ابھی تعلیم اور دوسرے قومی مساہل کے سمجھنے کے قابل نہیں ہوا۔ 

 



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160