سرمایہ دارنہ نظام اور سوشل ازم کی انتہا پسندی

Posted on at


سرمایہ دارنہ نظام  اور سوشل ازم کی انتہا پسندی



انتہا پسندی کا نام آتے ہی ہمارے اذہان کا رخ  فوری طور پر مسلم امہ کے اُن خود کش حملوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو اپنی جان کو انتہا کی قربانی پر لگا دیتے ہیں۔  حرف عام میں ایسے شخص کو فدائی بھی کہ سکتےہیں اور دہشت کی صورت بھی۔



دوسری جنگ عظیم کے بعد دو بڑے معاشرتی اور معاشی نظاموں کے درمیان انتہا کی ٹکر تھی۔ جو سوشل ازم اور سیکولر ازم کے طور پر سامنے آئیں۔ ان دو بڑے معاشرتی نظاموں کے پیچھے دو بڑی سمارجی طاقتیں تھیں۔ روس اور امریکہ۔  ان سامراجی طاقتوں نے اپنے اپنے نظامت حکومت کے نفاذ اور دنیا پر اپنا اثر و رسوخ ڈالنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے انتہا کی طاقت استعمال کی۔


 


روس  سوشل ازم یا کیمونزم طرز حکومت کا حامی تھا جو اس نے باقائدہ طور پر اپنے ملک پر عملی طور پر نافذ کیا ہوا تھا۔  اس طرز معاشرت کے پیچھے کارل مارکس جو ایک جرمن تھا اس کا نظریہ کارفرما تھا۔  اس طرز معاشرت میں مذہب کا یکسر نظر انداز کر کے انسان کے زہن میں  اس نظریہ کی پختگی لانا تھا انسان کا وجود ایک جانور کی ترقی یافتہ شکل ہے۔   اس نظریہ کا عملی نفاذ لیلن جو روسی رہنما تھا اپنے ملک پر کیا، اس نظریہ کے تحت ملک کا سارا نظام قومیت کے اندر ہوتا ہے ملک کے سارے افراد کو ملک میں برابری کی سطح پر کام کرنا ہوتا ہے سب ہی کو برابری کے حقوق حاصل ہوتے ہیں ہر فرد کے خاندان کی کفالت، رہائش،  بچوں کی تعلیم، روزگار اور علاج معالجے کو سہولیات حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو صرف  ملک کے لئے کام کرنا ہوتا ہے۔  یہ نظام تقریباً اسلامی اصل معاشرتی نظام کے قریب ہے اگر اس میں مذہب کی عمل درآمد پر پابندی نہ ہو۔


اس نظام معاشرت کے نفاذ کے لئے روس جیسی سامراجی طاقت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، دنیا میں روس کے  کا اثر کیوبا، شمالی کوریا، لیبیا، عراق، شام اور افغانستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں تک بھارت کے اندر بھی جب تک روس متحدہ قوت تھا ایک کیمونسٹ پارٹی تھی۔ 


دوسری طرف سرمایہ داروں نے اپنے فیکٹریوں سرمایے کے نظام کو بچانے کے لئے سیکولر ازم معاشرتی نظام کو نافذ کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔  سیکولر ازم میں چند ایک حکومیتی قوانین کی پابندی کے علاوہ ہر شخص حکومیتی اثرورسوخ سے مبرا ہوتا ہے۔  ہر سخص خود کاروبار چلا کر سرمایے کی ہیر پھیر کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نظام میں حکومت ان سہولیات سے بھی جو رہائش، میڈیکل، تعلیم وغیرہ کی شکل میں کیمونازم  میں حکومت مہیا کرتی ہے کی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔



سامراجی قوت روس نے اس نظام کو وسعت دینے کی خاطر افغانستان اور پھر پاکستان بھی آنا تھا، جس میں لاکھوں لوگوں کر قتل کیا گیا اور کروڑوں کو بے گھر کیا گیا اس انتہا کی ظلمت کشی کی تصویر پاکستان اور ایران میں لاکھوں افغانی مہاجرین کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو دور میں سوشل ازم کے نفاذ کی ایک کاوش کی گئ لیکن روسی لیڈر لیلن کی طرح کی مثال جس نے اپنی جائداد اور زمینیں قومی تحویل میں دیں دی تھیں بھٹو صاحب نہ دیں سکے اور اپنی زمینیں اور جائدادیں قومی تحویل میں دینے کی بجائے اپنے پاس ہی رکھیں۔



جب انگریزوں نے 1937 کے الیکشن کے بعد کی صورت حال کو جان کر متحدہ ہندوستان کی کوشش کی جس کی روح سے متحدہ ہندوستان کی ریاستوں یا صوبوں کو نیم خود مختیار کرنا تھا۔ کیونکہ برطانوی سامراج کا سورج  دنیا سےغروب ہو رہا تھا اور امریکی سامراج کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ اس پیش کردہ اصول کی  قائداعظم ؒ  نے بھی ہمایت کی تھی لیکن نہرو کی مخافت نے انگریزوں کی کوشش کو ناکام کر دیا اور سرمایہ کار اور جاگیردار نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔  اس کا براہ راست اثر اقلیتوں پر پڑا ، خصوصاً مسلمانوں پر انتہا کے ظلم و ستم کئے گئے جس کی مثال شائد ہی دنیا میں پیش ہوئی ہو۔  لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لاکھوں لوگ قتل ہوئے۔ امریکہ سرمایہ دارنہ نظام کا بڑا حامی تھا اسی طرح وہ ہندوستان کی تقسیم کا بھی حماتی تھا اور اس کی ضرورت بھی تھی



جس ملک کے لوگ


سیکٹروں برس سے مذاہب کے رنگ سے بے نیاز اکھٹے رہ رہے تھے سمارجی قوتوں کے بے رحم منصوبوں کی نزر ہو گے۔  بھارت سے کروڑوں مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی اکثر کو راستوں ہی میں لوٹا گیا اور قتل کیا گیا اسی طرح سکھ اور ہندوؤں نے اپنے گھربار چھوڑ کر پاکستان سے بھارت کی طرف ہجرت کی۔


 


سرمایہ دارنہ نظام کو تحفظ دینے کی خاطر عرب ریاستوں میں بادشاہت کے نظام کو فوقیت دی گئی اور اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جو دینا کی ریاستے اس نظام سے کنارہ کشی کی کوشش کر رہی تھیں انہیں ایسے ڈھگ سے اور معاشی معاملات میں پھسا کر اس نظام کا حصہ بنایا گیا۔



 


اگر کوئی ویسع النظر شخص دو قومی نظریہ یا ہندوؤں کا نظریہ اکھیڈ بھارت سے ہٹ کر دیکھے تو واضح اور صاف طور پر کہ جا سکتا ہے ہندوستان کی تقسیم سرمایہ دارنہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کی گئی تھی۔  اسی نظام کو تحفظ کی خاطر طبقاتی جدوجہد کو ختم کرکے مذہبی جنونیت پھیلائی گئی، طبقاتی جدوجہد سے مراد غریب طبقات کی امیروں کے چنگل سے نکل کر اور آزاد ہونے کی حقیقی کوشش ہے۔ مذہبی جنونیت کی تصویر آج ہم اپنے ملک پاکستان پھر افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی ریاستوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اصل راہ سے گمراہ ہو کر ایک دوسرے کو قتل کرنے اور کافر کہنے اور دیگر ہتک آمیز راویوں پر اتر آئے ہیں۔  یہ سب کچھ سرمایہ دارنہ نظام کے تحفظ و فروغ دینے کی ایک کڑی ہے۔  بھارت اور پاکستان قوم اس جنونیت کی وجہ سے جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور کسی بھی وقت یہ آتش فشا پھٹ جائے گا اور کروڑں لوگ اور املاک اس کے ہولناک نتائج کی زرد میں آئے گے۔



سرمایہ درانہ نظام  اور سوشلزم یا کیموازم سامراجی قوتوں کو شخاسانہ ہے۔  دنیا میں اس وقت سامرجی قوتیں چائنہ ، روس اور امریکہ اپنے اپنے نظاموں کو پھیلانے اور اثرو رسوخ پھیلانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور اس انتہا کی کوشش میں چاہئے لاکھوں کروڑں لوگ متاثر ہو یا مارے جائے اس انتہا پسندانہ عزائم سے انہیں روکنا ممکن نظر نہیں آتا۔



160