حضرت ابو ایوب انصاری - تیسرا اور آخری حصّہ

Posted on at


کھانے کے بعد رسول اکرم صلّ اللہ و سلّم اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت ابو ایوب سے فرمایا کل ہمارے پاس تشریف لانا .آنحضرت صلّ الله و علیہ و سلّم کا یہ وطیرہ تھا کہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی آدمی بھلائی کرتا تو آپ اس کا بدلہ ضرور دیتے تھے .اگلا دن طلوع ہوا تو حضرت ابو ایوب انصاری آپ صلّ الله و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اکرم صلّ الله و سلّم نے اپنی ایک کنیز حضرت ابو ایوب کو بطور تحفہ عنایت کر دی اور ساتھ ارشاد فرمایا ابو ایوب اس کے ساتھ خیر اور بھلائی کا سلوک کرنا ،یہ جب تک ہماری خدمت میں رہی ہم نے اس کے اندر ہمیشہ خیر اور نیکی ہی دیکھی .حضرت ابو ایوب انصاری کنیز کو لیکر گھر پہنچے تو اہلیہ نے استفسار کیا کہ ابو ایوب یہ کنیز کس کی ہے اور کہاں سے آئی .تو حضرت ابو ایوب نے جواب دیا کہ یہ کنیز رسول اکرم صلّ الله و سلّم نے ہمیں بطور تحفہ عنایت کی ہے پھر فرمایا دینے والا کس قدر عظیم شخص ہے اور دی گئی چیز بھی کتنی معزز ہے .پھر کہنے لگے کہ آنحضور نے تاکید فرمائی ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو اہلیہ کہنے لگیں ہم رسول اکرم صلّ اللہ و سلّم کی نصیحت پر عمل کئے بنا کیسے رہ سکتے ہیں .حضرت ابو ایوب انصاری کہنے لگے میرے پاس اس نصیحت پر عمل کرنے کا اس سے زیادہ اچھا طریقہ کوئی نہیں کے اس کنیز کو آزاد کر دیا جاۓ .چنانچہ انہوں نے کنیز کو حلقہ غلامی سے آزاد کر دیا 



 


جب سے حضرت محمّد صلّ الله و سلّم ہجرت کر کے مدینہ میں سکونت پذیر ہوئے تھے اسی وقت سے کفار مکّہ ان کے خلاف طرح طرح کی سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف رہتے تھے تا کہ اسلام کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کہ لئے گل کر سکیں .حضرت ابو ایوب انصاری نے اسی وقت سے جہاد کو بطور پیشہ اختیار کیا ہوا تھا .غزوہ بدر کا معرکہ ہو یا احد کا ،غزوہ خندق ہو یا کوئی اور غزوہ ہر ایک میں حضرت ابو ایوب انصاری نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اپنی بہادری اور شجاعت کا لوہا منوا لیا .جب آنحضور صلّ الله و سلّم اس دنیا سے رحلت فرما گئے تو بھی حضرت ابو ایوب انصاری کسی ایسی جنگ سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتے تھے جس میں مسلمانوں کی شرکت کو لازمی قرار دیا گیا ہو .صرف ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ ایک لشکر میں شرکت نہ کر سکے وہ بھی اس لئے کہ خلیفہ وقت نے اس لشکر کا سپہ سالار ایک نوجوان سپاہی کو بنایا تھا اور حضرت ابو ایوب انصاری اس نوجوان کی کمان میں لڑنے کے لئے راضی نہ تھے .اور اس جہاد میں شرکت نہ کر سکنے کا قلق ان کو ہمیشہ رہا .ندامت کی وجہ سے ان کا دل ہمیشہ بوجھل رہتا اور فرماتے .جس کو میرے اپر ذمہ دار  بنایا گیا اس کی جواب دہی کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے .جب حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف ہوا تو حضرت ابو ایوب بنا کسی ہچکچاہٹ کہ حضرت علی کی فوج کا حصّہ بن گئے .ان کو دنیا میں سواۓ شہادت کے اور کسی چیز کی خواہش نہیں تھی



 


یزید نے اس وصیت پر عمل کیا اور قسطنطنیہ جس کو آج کل استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے وسط میں اس عظیم اور بہادر آدمی کی میت کو دفن کیا گیا .جب اس سر زمیں پر اسلام کی روشنی نہیں پھیلی تھی تب بھی وہاں کے لوگ حضرت ابو ایوب اور ان کی قبر کو پاکباز تصور کرتے تھے وہ قبر کی زیارت کو جاتے اور قحط کے دنوں میں قبر کے ذریعے بارش کی دعا کرتے 


************************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160