احساس

Posted on at


احساس

موضوع عجیب سا ہے۔ مگر لکھنے بیٹھو تو اتنی چیزیں ذہن میں آتی چلی جاتی ہیں کہ ہاتھ رکتے ہی نہیں۔ دراصل میرے خیال میں آج کا سب سے بڑا مسئلا احساس ہی ہے۔ اور جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں ادھر سے اس لفط کو قریب قریب مٹا دیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب شام میں گھر میں جو بھی بنتا تھا ہماری امی ہمیں پلیٹ میں ڈال کے دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ ساتھ والے گھر دے آو۔ اس زمانے میں کسی کے ہاں فوتگی ہو جاتی تھی تو محلے کے سارے لوگ مل کے جاتے تھے کہ آپ نے اگلے تین دن تک کچھ بھی نہیں بنانا۔ اور سارا کھانا اور ہر چیز محلے والے پوری کیا کرتے تھے۔ جب کہ حادثہ ہو جاتا تھا تو ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ سب سے پہلے جائے حادثہ پہ پہنچ جائے۔ تا ک مدد کی جا سکے۔ لوگوں کے اندر محبت تھی، مہر ووفا تھی، ایک دوسرے کے اوپر جان چھڑکتے تھے۔ دکھ درد کو بانٹتے تھے۔ ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔

مگر افسوس اب ایسا کچھ نہیں۔ اب ساری باتیں الٹ ہو گئیں۔ یہ سب نا پید ہو گیا۔ محبت کی جگہ حسد نے لے لی۔ بر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی دھن میں لگا نظر آتا ہے۔ ہر کوئی معاشرے میں اپنا مقام اس قیمت پر بنانا چاہتا ہے کہ کسی طرح وہ آگے نکل جائے۔ بھلے کسی کہ نقصان دے کے ہی ایسا کیوں نہ ہو۔ اسی وجہ سے معاشرے میں برائیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن نظر آتا ہے۔ ہر کوئی ہوا میں اڑنا چاہتا ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ میرے کسی عمل سے میرے بھایئ کا حق مارا جا رہا ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ اس عمل سے کتنے ہی لوگ ماہوس ہو جائیں گے۔ ان کا   کی طرف جائے گا۔اعتبار اٹھ جائے گا۔ معاشرے کے اندر بے اعتباری آئے گی۔ ہر شخص اسی راستے کہ چنے گا۔ اور پھر بہت سے لوگوں کا استحصال ہو گا۔ 

اب کی ان سب چیزوں کا سد باب ممکن ہے؟ ہاں! بلکل ممکن ہے۔ بس ایک چیز کہ اپنے اندر لے ک آنا ہے۔اور وہ امید ہے۔ کیوں کہ مایوسی سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہمیں نا امید نہیں ہونا۔ ہمیں صرف اپنی سوچ کو بدلنا ہے۔ ہمیں اپنے اندر تبدیلی لے کے آنی ہے۔ جس دن ہماری سوچ بدل گئی اسی دن ہم دوبارہ سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر لیں گے۔ 

حضرت علی فرماتے ہیں کہ اس دنیا کی سب سے مہنگی چیز احساس ہے۔

اسی کہ ہم نے حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے ہر ئس کام کے ساتھ کہ جو ہم کر رہے ہٰیں مخلص ہو جائیں تو ہمارا ہر کام بہترین ہو جائے گا۔ اگر کوئی طالب علم ہے تو اسے ہر وقت یہ احساس ہونا چاہئے کہ اس نے علم حاصل کرنا ہے۔ اگر کوئی کسی آفس میں کام کر رہا ہے تو اسے اپنا کام پوری ایمانداری کے ساتھ کرنا ہے۔ اگر کوئی معلم ہے اس نے طالب علموں کو پوری ایمانداری کے ساتھ زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ اگر کوئ ھسپتال میں دکھی انسانیت کی خدمت کر رہا ہے تو اسے وہ اپنی پوری ایمانداری سے کرنا ہے۔ 

الغرض ہم سب کا فرض صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے اندر احساس پیدا کریں۔ کیوں کہ ہمارا دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ اگر زمانے کو بدلنا ہے تو اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہو گا۔ تب ہی ہم اس دنیا میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ اور دنیا ک اندر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

 



About the author

Muhammad989

I am Lecturer in Chemistry at Cadet College Kalar Kahar.... Pakistan.....

Subscribe 0
160