فاتح اندلس

Posted on at


طارق بن زیاد کو دنیا کے ان  عظیم فاتحین میں مانا جاتا ہے جنہوں نے اپنی بہادری اور سمجھداری سے دنیا کا نقشہ ہی پلٹ دیا اور جن کی ہمت، شجاعت اور بہادری کے کارنامے دنیا کی تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد کرنے کے قابل ہیں- فاتح سپین "طارق بن زیاد" کو کہا جاتا ہے- طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے اور افریقہ کے باسی تھے- آپ خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے دور میں افریقہ کے گورنرموسیٰ بن نصیر کے نائب تھے- آپ نے دین اسلام کا پرچم ایک بڑی فوج کو شکست دے کر بلند کیا حالانکہ آپ کی اپنی فوج دشمن فوج کے مقابلے میں بہت مختصر تھی- 



طارق بن زیاد کو الله پاک نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا یہی وجہ تھی کہ بہت چھوٹی عمر میں آپ نے تمام جنگی فنون سیکھ لئے تھے- شمالی افریقہ میں تب مسلمان حکمران تھے ان کے دور حکومت میں سلطنت میں خوشحالی اور امن و امان کا دور دورہ تھا جب کہ یورپ کے ایک ملک سپین میں بہت ظالم حکمران راڈرک کی حکومت تھی. بادشاہ اور اس کے وزیر لوگ تو شان و شوکت  اور ٹھاٹھ باٹھ  کی زندگی بسر کر رہے تھے جب کہ عام آدمی ان کی ظلم کی چکی میں پس رہے تھے-  رڈارک نے عوام پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی- اس سے تنگ آ کر اس کے ایک گورنر "جولین" مسلمانوں کی مدد کے لئے آمادہ ہو گیا-



طارق بن زیادہ افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے اور موسیٰ بن نصیر نے سپین فتح کرنے لئے طارق بن زیاد کو سات ہزار سپائیوں کا لشکر دے کرسپین  کی طرف روانہ کیا-  طارق بن زیاد بہت ہی باہمت ، بلند حوصلہ اور انتہائی فرض شناس انسان تھے- وہ افریقہ کے جنوبی ساحل کی طرف بڑھے اور"جبل طارق" کے نام سے مشہور ہونے والی پہاڑی کے قریب اترے- راڈرک بھی اپنی ایک لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فوج لے کر جنگ کے لئے آگے بڑھا-  طارق بن زیاد کی فوج راڈرک کے مقابلے میں کم تھی انہوں نے موسیٰ بن نصیر سے مدد کی درخواست کی اور پھر پانچ ہزار مسلمان طارق بن زیاد کی مدد کے لئے آ پھنچے-



طارق بن زیاد کی فوج کی کل تعداد بارہ ہزار تھی ان کے پاس حوصلوں اور بہادری کی کوئی کمی نہیں تھی ، کمی تھی تو بہترین اسلحے کی- راڈرک کی فوج کی تعداد تو زیادہ تھی ہی ساتھ ساتھ جدید اسلحے سے بھی لیس تھی- طارق بن زیاد جرات اور بہادری کی اپنی مثال آپ تھے ساحل پر اترنے کے بعد انہوں نے جو بہادری کا قدم اٹھایا ایسا قدم کوئی سپہ سالار نہیں دکھا سکتا، انہوں نےساری کشتیاں اور جہاز جلانے کا حکم دیا وہ کشتیاں جن پر سوار ہو کر وہ لوگ یہاں آۓ تھے- ان کے ساتھی جو دشمن کی فوج کی تعداد اور اسلحے سے متاثر ہو رہے تھے ان کے لئے آپ نے ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور فرمایا :


                                                                                                                           "مسلمانو! خوب سمجھ لو  اب تمھاری واپسی کا کوئی راستہ نہیں- دشمن تمھارے آگے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے- اب عزم و ہمت کے سوا کوئی چارہ نہیں- تم اپنی جانوں پر کھیل جاؤ تاکہ کامیابی تمہارے قدم چوم لے- تم اس علاقے میں اللّہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لئے آۓ ہو- تم جو عزم کرو  گے الله تمہاری مدد کرے گا اور تمہارا نام ہمیشہ زندہ رہے گا- اگر میں مارا جاؤں تو آپس میں جھگڑا مت کرنا اگر تم دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے تو قتل کر دیےجاؤ گے یا گرفتار ہو کر برباد کر ہو جاؤ گی- اللہ کی راہ میں آگے بڑھو جب میں حملہ کروں تو تم بھی دشمن پر ٹوٹ پڑواور اس وقت تک دم نہ لینا جب تک یہ جزیرہ فتح نہ ہو جائے"-



 


طارق بن زیاد کی اس تقریر کے بعد مسلمانوں کے مایوسی میں پڑ جانے والے دلوں میں امید کی شمع روشن ہو گئی- طارق بن زیاد نے ان میں جوش اور جذبے کی ایک نئی  روح پھونکی تھی-ایمانی طاقت کے بل بوتے پر اس بہادر جرنیل نے اتنی کم فوج کے دشمن کو ہرا کر جنوبی سپین پر قبضہ کر لیا-  اگر حوصلے بلند ہوں تو کامیابی انسان کا مقدر بنتی ہے تھوڑی سی ہمت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے- یہ تمام باتیں آپ کی ذات کا حصہ تھیں اسی کے بل بوتے پر پر آپ نے سپین کے بہت سے اہم شہروں پر قبضہ کیا اس تاریخی فتح کے بعد مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک یہاں حکومت کی- ٩٥ ہجری میں طارق بن زیاد جنہوں نے لوگوں کو رواداری اور فراخ دلی سکھائی دمشق میں جہان فانی سے رخصت ہو گئے-   




About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160