مغرب کی بڑھتی ہوئی ترقی - دوسرا حصّہ

Posted on at


اب یہ بات تو گزرا ہوا کل بن چکی ہے جب سفید فام لوگوں کی بےحسی اور طوطا چشمی کی مثالیں زبان زد عام تھیں . تمام کے تمام مشرقی ممالک میں یہ تاثر بہت عام پایا جاتا ہے کہ یہ سفید فام افراد جن کو ہم اکثر گورے لوگ کہہ کر پکارتے ہیں انتہائی حد تک احساس سے عاری اور خود غرض لوگ ہوتے ہیں .مگر اب یہ بات الٹ چکی ہے حقیقت یہ ہے کہ اکثر ایشیائی افراد بے حس ثابت ہوتے ہیں جبکہ گوری اقوام میں میں راہ چلتے کسی کو مسکرا کے دیکھنا برا خیال نہیں کیا جاتا جبکہ یہاں اگر کسی کو اگر آپ مسکرا کے دیکھیں تو وہ اس کو اپنی توہین خیال کرے گا اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاۓ گا .مغربی ممالک میں اگر آپ کو کسی بھی طرح کی مدد کی ضرورت ہے تو دوسرے افراد بڑھ چڑھ کر آپکی مدد کرنے کی کوشش کریں گے مگر پاکستان میں تو آپ کسی سے راستہ بھی پوچھ لیں تو اکثر وہ غلط ہی بتاتا ہے تا کہ کم سے کم اگلے بندے کا وقت تو ضائع ہو .وہاں پر دکان دار آپ کو ہر قسم کی آزادی مہیا کرتے ہیں اور آپ پر اعتماد بھی جبکہ یہاں اگر کچھ خریداری کرنے کی نیت سے دکان پر جائیں تو دکان دار فوری طور پر ہوشیار ہو جاۓ گا کے کہیں آپ کوئی چیز نہ اٹھا لیں . اور یہاں نظم و ضبط کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا قطار بنانے کا اصول تو یہاں سرے سے ناپید ہے جبکہ مغربی ممالک میں تو مشہور ہے کے ٢ سفید فام افراد بھی کھڑے ہوں تو قطار قائم کر لیں گے یہ نظم و ضبط بھی انکی بڑھتی ہوئی ترقی کی ایک اہم وجہ ہے . وہاں وہ ہلڑ بازی اور دھکم پیل دیکھنے کو نہیں ملتی جو ایشیائی ممالک کی پہچان بن چکی ہے 



 


سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ وہاں اس بات کا بھی پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود بھی مد نظر رہے . پیسہ اخبار کے ایڈیٹر مولوی محبوب عالم نے یورپ کا سفر کیا تو انہوں نے خاص طور پر کتاب خانوں اور تعلیم کا ذکر کیا . انیسویں صدی سے ہی تمام یورپ میں تمام بچوں کی تعلیم کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور اگر والدین اس سلسلے میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوں تو اس کے لئے بھی وہاں کے قانون میں سزا کا سیکشن موجود ہے . مگر اکثر پاکستانی والدین یورپ و امریکہ میں مقیم ہونے کے باوجود اس بات کا دھیان نہیں رکھتے نتیجے کے طور پر پاکستانی بچے مغربی بچوں سے تعلیم میں پیچھے رہ جاتے ہیں . حال ہی میں لئے جانے والے ایک جائزہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی بچے وہاں موجود تمام اقلیتوں سے قابلیت میں کم ہیں . اور انکی تعلیمی کارکردگی کا معیار بھی خاصا گرا ہوا ہے . مگر وہاں کی حکومت اس سلسلے میں مناسب اقدامات کر رہی ہے اور تعلیم اور کارکردگی کا معیار بہتر بنانے کے لئے رقوم مختص کی جا رہی ہیں 



 


کسی بھی معاشرے کی بقا کا انحصار مساوات پر ہوتا ہے .مساوات کو معاشرے کی بنیادی اکائی تصور کیا جاتا ہے . کسی بھی مثالی معاشرے کی قیام کے لئے مساوات کا ہونا لازمی اور ضروری ہے . مغربی ممالک کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کے وہاں ذات پات اور رنگ نسل ان سب پر دھیان نہیں دیا جاتا .قانون کی لاٹھی ان سب سے بلند ہے . وہاں انصاف پانے کے لئے یہ ضروری نہیں کے آپ کسی وزیر یا بزنس مین کے فرزند ہوں . وہاں سب کو انصاف کی فراہمی بلا تخصیص کی جاتی ہے . ایک دفعہ برطانیہ میں ایک ٹی وی شو میں وہاں کے وزیراعظم ٹونی بلیر عوام کے سوالات کے جواب دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے ان کو ٹوک دیا .اور چونکہ اسکی دلیل درست تھی تو وزیراعظم نے نہ صرف اس سے معذرت طلب کی بلکہ اپنی معلومات میں اضافے کا وعدہ بھی کیا .ذرا سوچیں کیا پاکستان میں کوئی شخص ملک کے وزیراعظم کو اس طرح کھلے عام ٹوکنے کی جرات کر سکتا ہے ؟ یقینی طور پر اس بات کا جواب دیتے ہوئے ہمارے سر نفی میں ہل جائیں گے . مغربی ممالک میں انصاف کی فراہمی کے علاوہ اس بات کا بھی پورا دھیان رکھا جاتا ہے کہ اقلیتوں کی حقوق شکنی بھی نہ ہو . ان کو ہر طرح کی سہولیات حاصل ہوتی ہیں ملازمت میں ان کے لئے خاص طور پر کوٹا مقرر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ جو لوگ نا خواندہ ہوتے ہیں ان کے لئے پڑھنے لکھنے کی سہولیات کا بھی خاطر خواہ بندوبست ہوتا ہے . اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کے مذہبی جذبات بھی مجروح نہ ہونے پائیں .دیکھا جاۓ تو یہ سب ایک مسلم معاشرے کی خصوصیت ہونی چاہیے مگر غیر مسلموں نے اس کو اپنا رکھا ہے 



 


*******************************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160