(بالاچ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلوچ تشخص کی علامت (حصہ سوم

Posted on at


ایک مرتبہ بیورغ نے یہ کہلا کر بالاچ کو اشتعال دلانے کی کوشش بھی کی کہ ‘‘یہ کیا تم گیدڑ کی طرح راتوں کو بزدلانہ حملے کرتے ہو، اگر مرد ہو تو دن کے وقت آکر دو دو ہاتھ کرلو۔’’ بیورغ چاہتا تھا کہ کسی طرح بالاچ ایک مرتبہ دن کے وقت اس قبیلے کے درمیان آجائے تاکہ پھر وہ زندہ واپس جانے کے لیے باقی نہ رہے۔ بالاچ اشتعال دلانے کی اس حقیقت کو سمجھتا تھا، اسے اپنی بے سروسامانی اور بیورغ کی طاقت کا بخوبی اندازہ تھا اس لیے ایسا کرنا اس کے نزدیک بہادری نہیں بلکہ خودکشی کے مترادف تھا۔ گیدڑی کے بزدلانہ طعنے پر بیورغ کو جواب دیتے ہوئے بالاچ کہتا ہے۔


 


 بیورغ کیا تیرے ہوش و حواس سلامت ہیں میں کبھی گیدڑ کی طرح نہیں لڑتا، میں تو شیروں کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہوں۔ میرے پاس نہ تو قیمتی سواریاں ہیں اور نہ ہی کوئی بڑا لشکر۔ میں تو صرف تن تنہا ہر رات ساون کے بادلوں کی طرح گرجتے ہوئے لڑنے آجاتا ہوں۔ اس طرح بالاچ تنہا کئی سال تک بیورغ کے خلاف نبرد آزما رہا اور بالآخر بیورغ کو قتل کر کے اپنے مشن کی تکمیل کی۔ بعض روایات کے مطابق مستقل جنگی کیفیت سے تنگ آکر بیورغ نے اپنے قبیلے کے ساتھ وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔ علاقہ چھوڑ دینے کی بات تو ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بالاچ اپنے علاقے میں واپس آ جانے کے بعد پھر کبھی وہاں سے نہیں گیا۔ وہ تادمِ مرگ بیورغ کے ظلم کے خلاف مصروف جہاد رہا۔ ایک دن جب اس کے کچھ دشمن اس کا کھوج لگاتے اس کے قریب پہنچے اور اسے للکار کر کہا۔ اے بالاچ بہت قرض دار ہو گئے ہو۔


 


 بالاچ اس وقت تک کافی عمر رسیدہ ہو چکا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ آج اس کے دشمن اسے قتل کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، بالاچ نے یہ بہانہ کر کے کہ بڑھاپے کے باعث وہ ان کی بات سن نہیں پا رہا، ذرا میرے کان کے قریب آ کر بات کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص بالاچ کے قریب آ گیا تو اس نے اپنا خنجر اس کے سینے میں  گھونپ کر کہا کہ بالاچ نے قتل ہونے سے قبل خود اپنا انتقام بھی لے لیا ہے۔ اس کے بعد دوسروں لوگوں نے حملہ کر کے بالاچ کو بھی ختم کر دیا۔ اس طرح بلوچوں کے اس تاریخی کردار کا دور اپنے اختتام کو پہنچا اور اس کی یادیں بلوچ تاریخ کے صفحات میں باقی رہ گئیں۔


    



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160