"بجٹ صاحب"

Posted on at


 

امجد ایک دیہاتی لڑکا تھا- اس کا باپ کھیتی باڑی کرتا تھا- باپ کی زمین تو کافی تھی مگر بارانی علاقہ ہونے کی وجہ سے فصل کی پیداوار کا انحصار صرف بارش پر تھا- گندم کی فصل پر کبھی ایک بوند بھی نہ گرتی اور چاول کی فصل کے موسم میں بارشوں سے سیلاب کا پانی گاؤں کی دیواروں تک کھڑا رہتا اور کھیتوں میں صرف کنول کے پھول ہے ہوتے، جو لوگ رات کو توڑ کر کھا بھی لیتے اور بیچ کر کچھ رقم بھی کما لیتے-

 

امجد نے جب اسکول جانا شروع کیا تو نزدیک ترین اسکول گاؤں سے ٧ کلو میٹر دور تھا – چھٹی کے بعد وہ مویشی سنبھالنے کے لئے ابو کے ساتھ کم کرتا تھا- کرتے کرتےوہ  کلاس دہم کا طالب علم ہو گیا- گھر میں سب خوش تھے- امجد کی خالہ نے سردیوں کی راتوں کو جاگ کر اس کے لئے ایک عمدہ سا سویٹر بنایا اور تحفہ دے کر کامیابی کی دوا کی-

میٹرک کے امتحان سے فارغ ہو کر امجد نے امی سے مشورہ کیا کہ امتحان میں پاس ہونے پر مٹھائی تقسیم کریں گے- اور خالہ لوگوں کی دعوت کرے گی- امی نے کہا کہ بیٹا ہمیں تو عید پر بھی ایک پاؤ گوشت کی توفیق نہیں ہوتی، مٹھائی کہا سے لاۓ گے- آخر طے پایا کے وہ سویٹر بچ دے گا- جس کے لئے امجد نے کہا کہ وہ اپنے ٹیچر نصیر صاحب کے بیٹے بشیر سے بات کرے گا- بشیر سے بات ہوئی تو اس نے کہا کہ وہ ابو سے بات کرے گا- دوسرے دن بشیر نے بتایا کے ابو کہتے ہیں کے مہنگائی بٹ ہے- بجٹ انے والا ہے اگر بجٹ نے اجازت دی تو دیکھیں گے-اب امجد نے سوچا کہ وہ بجٹ کیا ہے- پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا فاصلہ کرے گے – اس کی سری امیدیں بجٹ پر لگ گیئی-

 

\

 

ایک دن بشیر چھت پر تی وی کا انٹینا سیٹ کر رہا تھا کہ آج بجٹ آۓ گا – اس دن امجد ماسٹر صاحب کے گھر کے گرد گھومتا رہا کہ بجٹ ان کے گھر آۓ گا- تو دیکھوں گا- گیٹ بند تھا- اس نے کھڑکی کے ایک سوراخ سے دیکھا- سب گھر والے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے- ایک آدمی عنیک لگاۓ کھڑا تھا-وہ اونچی آواز میں بول رہا تھا اور کبھی کبھی پانی پی رہا تھا- امجد نے سوچا یہ بجٹ صاحب ہیں- یہ تو بری مشکل میں نظر ا رہے ہیں- یہ میرا سویٹر نہیں بکنے دے گے- کچھ لوگ اس کے پیچھے میز بجا کر اس کا حوصلہ کر رہے تھے- اور کچھ تبصرے لگا رہے تھے کہ ظالم یہ کام بند کرو- کچھ دیر بعد تی وی بند ہو گیا اور بجٹ صاحب بھی چلے گے- بشیر باہر آیا اور امجد کو بتایا کہ بھائی اب سویٹر لینا مشکل ہو جائے گا- امجد کی امیدوں پر پانی پر گیا-

 

ایک دن امجد کے ابو اس کی امی کو لے کر شہر ڈاکٹر کے پاس گے- گھر آ کر اس نے بتایا کہ وو سویٹر بیچ کر دوائی کے لئے پیسے بنے- ڈاکٹر نے ٹیکا لگایا اور دیوائی دی- پیسے دیے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بجٹ انے پر دوائیاں مانگی ہو گیئی ہے- پیسے تھوڑے ہیں اس نے کھانے والی دوائی واپس دے دی اور کہا ٹیکے سے ہی آرام ا جائے گا-

 

امجد نے یہ سنا تو اسے بہت ھی افسوس ہوا اور اس نے کہا اب اب غریبوں کے لئے کنول کا پھول اور پیر با با کا دم ہی مسیحا ہے- 



About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160