نچلی سطح پر منتقلی اختیارات

Posted on at


نچلی سطح پر منتقلی اختیارات



ہمارے ملک میں آزادی رائے ، آزادی صحافت کے مطالق تو آئے دن لکھا جاتا ہے اور آمریت کے دور کی پابندیوں اور زیادتیوں کےدنوں کو خوب کونسا اور یاد کیا جاتا ہے۔  لیکن کچھ ایسے کام جو ہمارے جمہوری قائدین کرنا نامناسب سمجھتے ہیں شاہد اس کا وجہ اختیارات کی تقسیم کی گرفت محدور و کم رکھنی ہو نہیں کرنا چاہتے، لیکن ایک کام جو  گزشتہ دور جرنیلی میں ہوا وہ قابل ستائش ہیں ، وہ ہے اختیارات کا نچلی سطح پر منتقلی جو جنرل پرویز مشرف (ر) کے دور اقتدار میں کیا گیا۔  اُن کے دور کے اور بھی کئی ایک نیک کام ہیں جن میں آئی ٹی یونیورسٹیوں کا قیام، آئی ٹی سے وابستہ کمپوٹر ٹیکنالوجی کی عام شہری تک رسائی۔  موبائل  ٹیکنالونی ملک میں لانا وغیرہ۔ اایک قابل تحسین کام ملکی اختیارات و وسائل کو علاقائی سطح تک منتقل کرنا بھی ہے۔


ملک میں اختیارات اور وسائل کی ضلعی اور تحصیل و یونین کونسل تک منتقلی اور علاقے کے لوگوں کا آسانی سے اپنے منتخب شدہ لوگوں تک رسائی اور علاقے کے مسائل پر بعث اور اُن کا حل ، علاقائی سطح پر ترقیاتی کام  یقینی طور پر بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن بدقسمتی ہماری قومی منتخب عوامی نمائندگان  کی جو جمہوریت کے گیت الانپتے نہیں دکھتے  اور دوسری طرف جمہوری قائدین نے  گزشتہ آٹھ سالہ جمہوری دور میں اس حقیقی بلدیاتی نظام کو لاگو کرنے اور اس کی خوبصورتی اور خوبیوں کو بےرحمی سے نظر انداز  کیا ۔  کیونکہ ہمارے قومی وقار کے عامل قومی و صوبائی ایواںوں میں اکثر براجمان نمائنداگان کا تعلق وڈیرہ، جاگیرار ، صنعت کار اور نواب طبقات سے ہیں۔  جو اختیارات کو علاقائی سطح پر منتقلی کو اپنے جاری و ساری طویل اقتدار کے نشے کو زہر قاتل  سے کم تر نہیں سمجھتے۔ قانون ساز ایوانوں میں یہ لوگ کم ہی جاتے ہیں اور اکثر اوقات کورم عوامی نمائندوں کی عدم حاضری کی وجہ سے خالی ہوتا ہے جس سے ان لوگوں کی عوامی معاملات میں سجنیدگی کس قدر نظر آتی ہے اس  قومی غفلت سے عیاں ہے۔


بلدیاتی نظام کی ایک خوبی یہ ہے دہی علاقوں کی سطح پر منعقد اجلاس روزانہ ہی بااحسن و خوبی سرانجام پا جاتے ہیں ان اجلاسوں میں ضلع ناظم ، تحصیل ناظم، کونسلر نمائندگان کی بھر پور شرکت ہوتی ہے اور علاقائی مسائل کے حل کی دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ لوگ حقیقی عوامی نمائندگی کا ثبوت دیتے ہیں اور ہر وقت باآسانی دستیاب ہوتے ہیں اس کے علاوہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے پیش پیش ہوتے ہیں۔



اس کے برعکس صوبوں اور مرکز کے ایوانوں میں براجمان جمہوری نمائندگان کا کام بلدیاتی کاموں سے علیحدہ ہے اُن کا کام صرف قانون سازی ہے ۔ لیکن اکثر بلکہ بیشتر ارکان کی قانون سازی میں عدم دلچسپی ہے وہ بلدیاتی کاموں کے فنڈز اپنے پاس رکھ کر اپنے من پسند ٹھیکے داروں کو کام دلواتے ہیں جس میں عوامی سہولیات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جگہ جگہ ایسے کام نظر آتے ہیں جس میں قومی دولت کا ضیاع ہی نظر آتا  ہے۔ اس کے علاوہ سونے پہ سوہاگا، یہ ارکان اسمبلی وقومی و صوبالئ اجلاسوں میں شرکت کئے سالانہ لاکھوں روپے کے علیحدہ سے الاؤنسز لیتے ہیں۔ اور ہال میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے خوش گمپیوں میں مصروف نظر  آتے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر مختصر حاضری کے بعد اسمبلی سے چلے جاتے ہیں۔


حکومت جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کر ا کے قومی وسائل و اختیارات کا دائرہ وسیع کرے اور انہیں علاقائی حقیقی عوامی نمائندوں کو سونپ دےعوام کا بلواسطہ تعلق علاقائی مسائل و ترقیاتی کاموں سے ہی ہے جو بلدیات سے منسلک ہے   تاکہ ملکی ترقیاتی کاموں کا سکوت و جمود ٹوٹ جائے اور وطن عزیز اپنی حقیقی منزل کی جانب رواں و دواں رہے۔


 


 



160