شہید کربلا حضرت امام حسین

Posted on at


قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت علی کے فرزند حضرت امام حسین نے سچائی اور حق کی سر بلندی کے لئے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا_ خاندان بھر کے قیمتی لعل و جواہر سمیت مقام شہادت پایا_ حضرت امام حسین کو یزید کی غیر اسلامی حرکات سے نفرت تھی_ اس لئے آپ نے اس کی بیعت نہ کی_ رعب اور لالچ کی پرواہ نہ کرتے ہوے گردن نہ جھکائی_ آپ نے اہل و عیال کو ساتھ لیا اور خاموشی سے مدینہ سے رخصت ہو گئے اور مکہ پہنچ گئے_ وہاں پہنچنے کو اہل کوفہ نے خطوط میں آپ کو لکھا کہ یزید خلیفہ نہیں بلکہ بادشاہ ہے جو کہ ظالم و جابر ہے_ اس کی خلافت اسلامی اصولوں کی رسوائی ہے_ اس لئے آپ کی رہنمائی اور قیادت کی شدت ضرورت ہے_ آئیےاس غیر اسلامی حکومت کے خلاف جہاد کریں یہ مہم خطرناک ہے لکن اسلام کی سر بلندی کے لئے تھی_ آپ نے اپنے چچا زاد بھاہی مسلم بن عقیل کو حالات معلوم کرنے کے لئے کوفہ بھیجا_ مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچنے کے بعد حالات ساز گار دیکھے تو حضرت امام حسین کو کوفہ پہنچنے کو لکھا_ اہل مکہ آپ کو چھوڑنا نہیں چاھتے تھے اس لئے انہوں ہے جانے سے منح کیا_ آپ نے اپنے خندہ والوں کو ہمراہ لیا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے_ سخت گرمی میں تپتی ریت سے گزر کر تحلبیہ پہنچے تو مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ملی_ ادھر یزید نے لوگوں سے بیعت لینا شرو کر دی اور ابن زیاد کو کوفہ کی حکومت سپرد کر دی_ اسے حکم دیا کہ حضرت حسین کو کوفہ تک نہ پہنچنے دیا جائے_ اس دوران حضرت امام حسین مقام اشرف میں پہنچ گئے وہاں سے کربلا کے میدان میں دریاے فرات کے کنارے ڈھرے لگا لئے_ یہ وحشت ناک صحرا تھا_

جس میں کوئی درخت نہ تھا_ خیمے نصب کرنے کے بعد ریت پر تمام لوگ نماز ادا کرنے لگے_ ابن سعد نے امام حسین کو بیعت کرنے کو کہا لکن آپ نے انکار کر دیا اس دوران شمر نے دریاے فرات پر قبضہ کر کے اہل بیعت کا پانی بند کر دیا_ حضرت امام حسین نے نو محرم کی رات اپنے رفقاء کو بلایا اور فرمایا یہ لوگ صرف میری جان کے دار پے ہیں تم سب رات کی تاریکی میں یہاں سے نکل جاؤ دشمن تمہارا پیچھا نہ کری گا_ امام حسین کو اکیلا چھوڑنے کو کوئی بھی تیار نہ تھا_

دسویں محرم کو ابن سعد نے اپنی فوج کو منظم و مرتب کیا اور حملہ کر دیا_ مقابلے میں بہتر جانبازوں کا قافلہ بھی جوش و خروش سے صف آرا ہوا_ ہزاروں دشمنوں کے مقابلے میں امام حسین پر سب نثار ہو گئے_ حضرت امام حسین لاش پہ لاش لاتے رہے_ آخر میں خود تلوار لاے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے_ دشمنوں کو واصل جہنم کیا_ آخر کار تلواروں نیزوں اور تیروں کے زخموں سے چور ہو گئے_ اور جب نماز کے لئے سجدہ کیا تو شہید ہو گئے_ اور دین بر حق کی سر بلندی کا نشان بن گئے- حضرت امام حسین نے باطل کے سامنے گردن نہ جھکائی جان دے دی لکن اصولوں پر سودے بازی نہ کی_ نبی کی نواسی حضرت فاطمہ اور حضرت علی کی بیٹی حضرت حسن اور حضرت حسین کی بہن حضرت زینب کو خاتون کربلا کہا جاتا ہے_ آپ پانچ ہجری کو پائندہ ہویئں تو نانا جان نے زینب نام رکھا_ نبی کے وصال کے بعد آپ کو اپنی پیاری والدہ ماجدہ کی جدائی نصیب ہوئی آپ کا نکاح حضرت جعفر طیار کے بیٹے حضرت عبدللہ سے ہوا_ آپ عقل و دانش کی ملک تھیں_ قرآن و تفسیر پر عبور حاصل تھا_ حضرت حسین کی ہمراہی کے لئے اپنے خاوند سے اجازت لاے کر ہمراہ گیں_ آپ کے دونوں بیٹے حضرت عون اور حضرت محمّد بھی ہمرا تھے_ میدان کربلا میں دونوں بیٹوں بھاہی اور بھتیجوں کی لاشیں دیکھ کر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا_ تاریخ اسلام آپ کے مرتبہ و مقام کا احترام کرت ہے_ قافلہ حسینی شام کو جانے لگا تو لاشوں کو دیکھ کر بے مثال صبر کا مظاہرہ کیا اور فرمایا الہی ہماری قربانی قبول کرنا خواتین اور یتیم بچوں کے ساتھ کوفہ پہنچی_ قافلے کو یزید کے دربار میں پیش کیا گیا_ تو بھی جابر حکمران کے سامنے حق گوہی کا مظاہرہ کیا_ حضرت زینب کی کردار مسلمان خواتین کے لئے نمونہ عمل ہے_ آپ کا وصال پندراں رجب باسٹ ہجری کو دمشق کے قریب ہوا زینبیہ میں مدفون ہوئیں_



About the author

160