ہے کچھ اپنا نہ کچھ پرایا ہے
یہ جہاں کس کے ہاتھ آیا ہے
اپنی طوفان کی دشمنی تھی قدیم
پھر بھی گھر ریت کا بنایا ہے
مانگ میں تیرے پھول بھرنے کو
تیرا دیوانہ لوٹ آیا ہے
یونہی آزادیاں نہیں ملتیں
خون دل سے چمن سجایا ہے
اپنی دھرتی کی مانگ بھرنے کو
ہم نے خون جگر بہایا ہے
ساقیا!ہوش پھر نہیں آیا
جانے شیشے میں کیا پلایا ہے
دوریوں سے کہا گلہ مجھ کو
دوریوں نے قریب لیا ہے
ہیں یہ دل کی حکایتیں محبوب!
کون کہتا ہے گیت گیا ہے