توانائی ضائع کرنے والی غذائیں

Posted on at


 


بعض اوقات زیادہ بھوک اور نڈھالی میں ھم فورا توانائی حاصل کرنے کے لئے ایسی غذا کی طرف دوڑتے ہیں جن میں کیلوریز کافی مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں حرارے بہت زیادہ ھوتے ہیں اور کچھ میں بہت کم جو کہ فائدہ مند نہیں۔


کچھ غذائیں ایسی ھوتی ہیں جن میں کیلوریز بہت زیادہ مقدار میں تو پائی جاتی ہیں لیکن وہ توانائی فراھم کرنے کے بجائے جسم کے لئے نقصان دہ ھوتی ہیں۔ آج ھم آپ کو جسم سے توانائی ضائع کرنے والی چند چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔



انرجی ڈرنکس۔


آجکل بازار میں طرح طرح کے انرجی ڈرنکس فروخت ھو رھے ہیں جو کہ وقتی طور پر تو جسم کو توانائی فراھم کرتے ہیں۔ در حقیقت اس طرح کے ڈرنکس میں کیفین شامل ھوتی ھے جو فوری جسم پر اثر کرتی ھے۔ لیکن جیسے ھی اس کا اثر ختم ھوتا ھے آپ خود کو پہلے سے بھی زیادہ تھکا ہارا محسوس کرتے ہیں۔ ان ڈرنکس کا استعمال ہرگز نہ کرین کیونکہ اس سے گردوں کے مسائل جنم لیتے ہیں۔



ناشتے میں میٹھے کا استعمال۔


ناشتے میں سفید آٹے اور شکر کا استعمال توانائی کو ضائع کرنے کا بڑا ذریعہ ھے۔ اور افسوس ناک بات یہ ھے کہ اکثر گھروں میں دن کا آغاز ھوتا ھی میٹھے سے ھے۔ مثلا ناشتے میں کوئی بھی میٹھی چیز جیسے کیک، ڈونٹس یا پھر سوئیٹ رول وغیرہ کھا لئے جاتے ہیں۔ صبح کے وقت اتنا میٹھا کھانے سے جسم میں سے کاربو ہایڈریٹس تیزی سے کم ھونے لگتے ہیں اور خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ھونے لگتی ھے۔ جس کا دماغ پر برا اثر ھوتا ھے۔




چکنائی والی غذائیں۔


زیادہ چکنائی والے اور مرغن کھانے ، کھانے سے جسم تھکاوٹ زدہ اور سست ھوتا ھے۔ زیادہ چکنائی دماغی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ھے۔ اور آپکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ھونے لگتی ھے۔ اور جب دماغ غائب ھو تو جسم بحی حاضر نہیں رھتا۔




شراب۔


شراب کو غذا تو بالکل بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ تو ام الخبائث یعنی تمام خرابیوں کی ماں ھے۔ لیکن اسکا استعمال ھمارے معاشرے میں اتنا بڑھ گیا ھے کہ اب اسے عام بات ھی سمجھا جاتا ھے۔ جن لوگوں کو نیند نہ آنے کا مسئلہ ھو وہ سو نے سے پہلے پی لیتے ہیں کیونکہ الکحل میں اعصاب شل کرنے والے اجزاء موجود ہیں۔ اس لئے پیتے ھی فوراً نیند کا غلبہ ھوتا ھے۔اور جاگنے کے بعد بھی مسلسل تھکاوٹ محسوس ھوتی رھتی ھے۔



یہ تمام چیزیں لینے سے گریز کریں کیونکہ یہ جسم کی توانائی ضائع کر کے آپکو توڑ پھوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔ اس لئے ایسی چیزوں سے پرہیز ھی بہتر ھے۔



 



About the author

160