ناکام خارجہ امور اور جمہور

Posted on at


ناکام خارجہ امور اور جمہور


مروجہ نظامت جمہور کی تاریخ کئی  دہائیوں پر مشتمل اور صدیوں  پرانی ہے۔    سلطنت برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان میں سیاسی پارٹی کانگرس   کا بانی بھی ایک انگریز تھا جس نے اس کی بنیاد آٹھارویں صدی میں رکھی لیکن رفتہ رفتہ اکثریتی ہندو آبادی کی وجہ سے اس کی قیادت ہندو قائدین کو منتقل ہو گی۔  نظام جمہوریت میں سیاست کو کلیدی حثیت حاصل ہے۔  سیاسی قائدین عوامی منتخب شدہ لوگ ہوتے ہیں قطہ نظر بادشاہت یا آمریت کے   جمہوری ایونوں میں براجمان عوامی  نمائندوں کا کام  عوام کی خواہشات کے مطابق چلنا اور علاقائی مسائل  کو اُن کی دلیذ پر حل کرنا ہوتا ہے۔ عوامی خواہشات سے مراد  اُن ضابطوں کی قدر اور احترام ہے جس سے اُس علاقے کی تہذیب و ثقافت ڈلی ہے۔  زبان ، رہن سہن،علم و ادب ، صنعت و تجارت وغیرہ۔  



پاکستان کا قیام بھی جمہوری طور پر وقوع پذیر ہوا۔  جو سیاسی پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ کی مرہون اور قائداعظم کی باباک سیاسی تدبرانہ پرخلوص جرات مندانہ قیادت سے ہی ممکن ہو سکا۔


جمہوری طریقہ سے وجود سے آنے والی مملکت کا تقاضا بھی نظام جمہوریت تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا، اور عوامی خواہشات کے برعکس حکمران بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن گے اور جغرافیائی اہمیت کے حامل ملک کو بیرونی طاقتوں کے  مذموم عزائم کے ایجنڈے کی تکمیل صرف ذاتی مفادات کی خاطر  ہی ملحوظ خاطر رکھا۔  اکثریتی جمہور کی بولی جانے والی زبان کو نظرانداز کر دیا گیا، جس کا براہ راست اثر معاشرتی تہذیب و ادب و علم پر پڑا۔  جب کہ علم و ادب    فن و حرفت کی ترقی کا درومدار علاقائی بولی جانے والی زبانوں کی وجہ سے تیز تر ہوتا ہے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا، عوام فنون و ہنر سے نابلد اور زہنی جمود کا شکار ہو گے۔  صنعت و حرفت میں جمود طاری ہو گیا، زرعی ملک جدید زرعی اصلاحات و ترقی سے محروم ہو گیا۔ بے روزگاری کا یہ عالم ہو گیا کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بھی ایک عام سی نوکری کے لئے بھی گلی کوچوں کی خاک چھاننے لگا۔  اس کے برعکس دنیا میں بہترین جمہوری اقدار کی وجہ سے صنعت میں بے پناہ ترقی ہوئی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور ہمارے حکمرانوں پر عوامی دباؤ سے بے روزگار پڑھے لکھے لوگوں کو حصول روزگار کے لئے سستی افرادی قوت کے ان ممالک سے معاہدے کرنے پڑے۔  ہونا تو یہ چائیے تھا کہ قدرتی وسائل سے مالامال ملک  اور جغرافیائی اہیمت  کے حامل ملک کو اپنی عوام کے لئےملک کے اندر ہی روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے اور جمہور کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھ کے قومی وقار کو مقدم رکھا جاتا لیکن حکمرانوں کے خون میں حرام دولت سے  مفاد پرستی ،  بے حسی اور بے رحمی کو تقویت ملی۔



آج ہمارے ملک کے ہر خاندان سے روزگار کے حصول کے لئے ایک نہ ایک بندہ بیرون ملک نوکری کررہا ہے۔ ان کی تعداد ایک کروڑ سے تجاویز کر چکی ہے کوئی سعودی عرب ، بحرین، قطر، کوریا، عراق، برطانیہ ، اٹلی ، امریکہ ، غرض دنیا کا کوئی ہی ایسا کونہ نہ ہو جہاں پاکستان کے لوگ نہ ملیں۔  



اسی طرح ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے بھی دنیا کے قرب و جوار میں حصول روزگار کے سلسلے میں آباد ہیں۔  باہر کے ملک میں جو کچھ بھی رویے ان مجبور پردیسی پاکستانیوں کے ساتھ ہو لیکن ملک کے اندر بھی کچھ کم نہیں۔  ہزارہ ڈویژن میں واقع ایک اکلوتا پاسپورٹ آفس ایبٹ آباد میں ہے جو کوہستان ، بٹگرام ، مانسہرہ ، طورغر، ایبٹ آباد اور ہری پور کے لوگوں کو بیرون ملک سفر کے لئے پاسپورٹ مہیا کرتا ہے۔  اس دفتر سے پاسپورٹ کا حصول بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہے۔  کروڑوں کی آبادی کا تقاضا تو یہ ہے کہ علاقے کی سطح پر مذید پاسپورٹ دفاتر ہو  لیکن خارجہ امور کے تحت چلنے والے ادارے کی بے حسی اور غفلت، لاپروائی اس اس کے خون میں رچ بس گئی ہے اس  کے لئے کسی سخت گیر عدل کی ضرورت ہے۔  کسی اور مسیحا کی تلاش   ہے۔ ایک چھوٹے سے ہال پر مشتمل ایبٹ آباد کا پاسپورٹ دفتر بنیادی سہولیات سے بھی عاری ہے۔ کم نشتیں ہونے کے سبب بیشتر امیدواروں کو گھنٹوں باہر روڑ پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جبکہ سکیورٹی و سٹاف عملے کا نخرہ اور نامناسب رویہ اس ادارے کے گھٹیا معیار کے پول کو کھولنے کے لئے کافی ہے۔ حصول پاسپورٹ کے لئے  معلومات و طریقہ کار جاننے کے لئے بھی  کوئی الہامی طاقت درکار ہوتی ہے،   پچیس تیس صحفات پر مشتمل  پاسپورٹ بک جس پر حکومتی خرچ 35 روپے بھی نہیں ہے اس کی قیمت 3500 روپے رکھی گئی ہے۔ ایسی لوٹ مار اور سٹاف کو نارواں سلوک و راویے  کی مثال شاہد فروعونیت کے دور میں بھی نہ ملتی ہو گی۔



ابھی چند دنوں پہلے کی خبر ہے بیرون ملک سفر کرنے والوں کو پولیو کی بیماری کی کلیئرس ٹیسٹ رپورٹ بھی اپنے کوائف کے ساتھ لگانی پڑے گی بچارے پردیسی پاکستانیوں پر ایک اور مصیبت ٹوٹ پڑی ہے اور ہمارے کرپٹ ہسپتالوں کی لیباٹریوں کے لئے پیدا کی ایک اور راہ کھل گئی ہے۔  پہلے ہی جہازوں کے ٹکٹ ، بیرون ملک رہائش کے کثیر اخراجات نے مجبور و بےبس پاکستانیوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور اوپر سے پاکستانی اداروں کے پیداگیر افسروں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔  آج ہمارے پاکستانی بھائی ہمارے حکمرانوں کی جمہوری ناقدری کی وجہ سے اس اذیت  اور قرب سے دوچار ہیں۔



پولیو مہم میں رکاوٹ میں حکومت کا کس قدر ہاتھ ہے اور ہر طرف سے اس کی کڑی حکمرانوں کے کرتوں سے ہی ملتی ہے۔  مجاہد بنانے سے لیکر دہشت گرد تک ، اسامہ بن لادن کو پناہ سے لیکر ڈاکٹر شکیل آفریدی تک پھر دہشت گردوں کو کلہ کمہ کرنے کے آپریشن جو مکمل طور پر جمہوریت کے اقدار و ضوابط کے منافی تھا اور عوامی خواہشات کے برعکس تھا۔ اگر ہمارے حکمران عوامی خواہشات کو مقدم رکھتے تو آج کے پاکستانی کو یہ اذیت ناک قرب کی صورت حال نہ دیکھنی پڑتی۔ 



160