مہمان نوازی اور اکرام

Posted on at


 


اگر گھر مہمان کی آمد زیادہ ہو۔ بعض گھروں میں مہمانوں کی آمد زیادہ ہوتی ہے ۔ اور میں اور دیگر لوازمات میں تکلفات کو اختیار کیا جاتا ہے ۔ اس لیے عورتیں سارا دن بہت زیادہ تھک جاتی ہیں۔اور وہ گھر کے کام کے علاوہ زیادہ دینی کام نہیں کر پاتیں۔اس لیے اگر مہمانوں کی آمد زیادہ ہوتو پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ تبارک تعالیٰ نے توفیق دی ہے تو آپ خادم رکھیں صرف مردوں کی خدمت کے لیے یا خادمہ رکھیں ۔ صرف عورتوں کی خدمت کے لیے ۔



خادمہ نہیں ملتی تو کوئی تو تصنع اور بناوٹ سے باہر آئیں اور عورتوں پر رحم کریں اور اکرام کے دیگر طریقے اختیار کریں۔ اور اگر دعوت کرنی ہی ہے تو اس کو سادہ ہی رکھیں خوب شوربے والا سالن بنالیں اگر دوسرا سالن بنانا ہے تو خوب شوربے والی دال کا سالن بنالیں۔ روٹیاں گھر میں آرام سے بن سکیں تو ٹھیک ورنہ باہر تندور سے منگوا لیجئے۔



بعض گھروں میں مردوں اور لڑکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ مہمانوں کی آمد پر شہزادے اور بادشاہ بن کر بیٹھکوں اور ڈیروں پر گپیں لگاتے ہیں۔ اور عورتوں سے فرمائشیں کی جاتی ہیں یہ ایک نامناسب طریقہ ہے۔ مردوں کو خود چاہیے کہ مہمانوں کا اکرام کریں۔ میرے والد ماجد حضرت مولانا محمد عبداللہ غازی شہید رحمہ اللہ کے پاس سارا دن مہمانوں کا ہجوم رہتا۔ گھر والوں پر بہت کم بوجھ ڈالتے تھے کھجوریں، پھل جو کچھ میسر ہوتا وہ خود لا کر پیش کر دیتے۔ یا پھر خود ہی باروچی خانے میں تشریف لے جاتے اور چائے یا شربت بنا کر مہمانوں کو پیش کرتے۔ اگر والدہ کہتی ہمیں کیوں نہیں بتایا تو فرماتے آپ لوگوں کو کیا تکلیف دیتا۔



اس لیے مردوں کو چاہیے کہ وہ شہزادے اور بادشاہ بن کر زندگی نہ گزاریں اکرام کے لیے اٹھ کر جو چیز میسر ہو بغیر تکلفات کے پیش کر دیا کریں۔ اکرام کا مقصد مہمان کو خوش کرنا ہے اور مہمان کو خوش کرنے کے طریقے کھلانے پلانے کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں۔ جن میں مہمان اور میزبان دونوں کا فائدہ زیادہ ہے۔ اکرام میں کھلانے پلانے ہی کے طریقے اختیار کرنے میں میزبان کو بھی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور مستورات کی صحت کو بھی نقصان ہوتا ہے۔ اور وہ ایک مشین بنی رہتی ہیں نہ آرام کو وقت اور نہ دینی کاموں کے لیے فرصت ملتی ہے۔ جو چیز گھر میں میسر ہو پیش کر دیا کریں اور زیادہ تکلفات سے بچیں۔




160