کتھارسس

Posted on at


کتھارسس


پرانے دور میں کسی کو بدنام کرنا مقصود ہوتا تھا تو اسکے خلاف اندرونِ خانہ خبریں پھیلانے کے لیے ایک خاص گروہ کو گاؤں شہر شہر پھیلادیا جاتا تھا ان افرادکے لیے ایک خاص ٹرم استعمال ہوتی تھی بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی میں اسے ڈھونڈنے سے قاصر ہی رہا اپنی ہندکو زبان میں آجکل ان کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یوں ہیں جیسے \" گُلہ \" یا \" لاٹو\" (اگر ان کا صحیح نام کوئی ہوتو اہل علم سے درخواست ہے کہ ضرور مطلع فرمائیں) ان گلوں اور لاٹووں کا کام یہ ہوتا تھاکہ وہ جگہ جگہ جاکر محفلوں میں بیٹھ جاتے اور جو پروپیگنڈہ کرنا ہوتا وہ شروع کردیتے اور ہفتہ دس دنوں میں ہی ان کا یہ پروپیگنڈہ پوری شدومدسے زبان زدو عام ہوجاتا اور پروپیگنڈہ کے توڑ کے لیے پھر کوئی اور حربہ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ رواج یہ حال اب بھی اسی تندہی اور مہارت سے جاری و ساری ہے۔ خاص کر الیکشن کے دنوں میں تو یہ بہت ہی زیادہ شدت سے استعمال کیاجاتا ہے اور یہ اتنا زوداثر ہوتاہے کہ صفائی دینے والا ٹائیں ٹائیں فش ہوکر رہ جاتا ہے۔ من گھڑت باتیں منسوب کرکے آگے پھیلا دینا ہمارے اسلام میں منع فرمائی گئی ہیں اس لیے ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ \" ہر سنی سنائی بات پر یقین مت کرو\" تحقیق لازمی قرار دی گئی ہے۔ اپنے معاشرے میں اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو ہر جگہ ایسے گلے اور لاٹو وافر مقدار میں ملیں گے جو من گھڑت باتیں مزے لے لے کر سناتے نظر آئیں گے۔ ایسی باتیں پھیلانے کا کام دبی ہوئی کسی قوم کے فرد زیادہ تعداد میں کرتے نظر آئیں گے جن پر بہت زیادہ مظالم ہوئے ہوں یا وہ دوسری قوموں سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہوں ۔پسے ہوئے، دبے ہوئے اور سہمے ہوئے افراد کے منہ سے یہ باتیں آپ کو بکثرت ملیں گی۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں اونچ نیچ، بڑے پن، چھوٹے پن، احساس برتری، احساس کمتری کے شکار افراد آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ جو ایک دوسرے کے خلاف ایسی باتیں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ وہ جب تک من گھڑت باتیں نہیں پھیلاتے یا کسی کو نیچا ثابت نہیں کرواتے انہیں ذہنی تسکین نہیں ملتی ۔ہم کوئی ماہر نفسیات ہوتے تو اس سائیکی کا کچھ علاج کرتے مگر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ جو عمل ہم یہاں چھوٹے لیول پر محسوس کرتے ہیں وہ عمل باہر کی طاقتیں بڑے پیمانے پردھڑے سے کرتی نظر آتی ہیں ۔وہاں اس کام کے لیے باقاعدہ کلاسز کا اجراء ہوتا ہے اور وہاں جاسوسی کا پورا یسا نیٹ ورک کام کرتاہے جو دوسرے ممالک میں جاکر باقاعدہ پرپیگنڈہ کرتے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ ایسا زہر قاتل ہوتا ہے کہ جو جگہ جگہ نفرت کی دیواریں کھڑی کردیتا ہے۔ غیر ملکی پروپیگنڈے نے کچھ یہی حال ہمارے ملک کا کردیا ہے۔مسالک کے جھگڑے ،مذہبی منافرت ،صوبائیت کا پرچار،زبان کے جھگڑے ،علاقائی جھگڑے،حقوق کے جھگڑے،تقسیم کے جھگڑے،آزادی کے جھگڑے ان ہی غیر ملکی گلوں اور لاٹووں کے ذریعے پھیل رہے ہیں ۔اور وہ کیا ہی کسی مشہور جرنیل کا قول ہے کہ \" کسی ملک کو تباہ کرنا ہوتو اسکی فوج کو بدنام کرنا شروع کردو\" تو آجکل آپ ہر طرف دیکھیں یہی سلسلہ جاری ہے۔ ہماری آئی ایس آئی پوری دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہے۔ اسکی اسی قابلیت سے خائف ہوکر غیر ملکی ایجنسیوں نے اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے ہماری آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کا سلسلہ اک عرصہ سے شروع کررکھا ہے حامد میر پر حملہ بلاشبہ افسوسناک سانحہ ہے مگر اسکے فوراً بعد جسطرح آئی ایس آئی پر کیچڑ اچھالا گیا وہ یقیناًقابلِ مزمت ہی نہیں بلکہ قابلِ گرفت بھی ہونا چاہیے پوری دنیا میںجسطرح آئی ایس آئی کو بدنام کیا گیا پوری دنیا کے میڈیا نے جسطرح آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا اس سے ہر پاکستانی کی دلآزاری ہوئی ہے۔ جیو گروپ کی طرف سے اب معافی نامہ بھی شائع ہورہے ہیں مگر کیا صرف معافی سے کام چل سکتا ہے۔ حامد میر بلا شبہ ایک نامور،نڈر اور بیباک صحافی ہے اس کی خدمات سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا مگر حامد میر سے زیادہ ہر پاکستانی کو ملکی سلامتی عزیز ہے بنا کسی ثبوت کے بنا کسی توجیہہ کے اسکے بھائی کی طرف سے آئی ایس آئی اور اسکے چیف ظہیرالاسلام کے بارے میں الزام تراشی نے حامد میر کی طرف جانے والی تمام ہمدردیوں کو یکسر منقسم کرکے رکھ دیا ہے۔ اور جیو چینل نے جس طرح آئی ایس آئی کے چیف کو ملزم ٹھہرا کر ان سے استعفے کا مطالبہ کیا تو اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ ملک میں قومی سلامتی کوئی حیثیت نہیں رکھتی یہاں ہر شخص کسی پر بھی انگلی اٹھا کر اسے بدنام کر سکتا ہے ۔ لیکن قصور ان چینلز کا نہیں ہے ان کے لیے باقاعدہ ایسا کوئی نظام اور قانون ہی متعین نہیں جن پر یہ چینلز یا اخبارات عمل پیرا ہوسکیں PEMRAکے قوانین پر عمل پیرا کوئی بھی نہیں اور اسے عرصہ دراز سے غیر فعال رکھا گیا ہے اور جب پانی سر سے اوپر چلا جاتا ہے تو پھر اس پر یہاں کام کرنے کی روایت ڈالی جاتی ہے اور اب بھی یہی ہوگا PEMRA کے قوانین ازسرنو ترتیب دئیے جائیں گے۔جیو نیوز آجکل کتھارسس کر رہا ہے اس کی پالیسیاں ایسی رہی ہیں کہ اس وقت وہ تنہا کھڑا ہے اور اس کی ھمدردی کے لیے کوئی نیوز چینل بھی آواز نہیں اٹھا رہا حکومتی سطح پر بھی اس کے لیے ہمدردی کا کوئی پہلو نظر نہیں آ رہا جبکہ اس کی بندش کے آرڈر بھی کسی بھی وقت جاری ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔کھلی آزادی یا یوں کہیں کہ مادر پدرآزادی کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔اپنی حدود و قیود کا ہمیشہ تعین کرنا چاہیے۔اس عمل سے اور کچھ ہو نہ ہو اتنا ضرور ہوگا کہ تمام میڈیا ایک دائرہ کار کے اندر آ جائیں گے۔اور آئندہ ملکی سلامتی کا ہر حال میں احترام و خیال رکھا جائے گا۔ اصلاح ضروری ہے مگر میڈیا کے ساتھ ساتھ تمام اداروں میں بھی اصلاح ضروری ہے اور اللہ کرے ہمارے ملک میں کوئی ایسا تھنک ٹینک ہو جو ملک کی بہتری کا سوچ سکے۔ورنہ لاٹو اور گلے یونہی شر پسندی پر لگے رہیں گے۔

 



About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160