ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں-

Posted on at


الله نے انسانی ذہن کو بہت سی  خصوصی خوبیاں عطا کیں ہیں جن میں سے ایک قوت مخیلہ بھی ہے- اسی قوت مخیلہ کو بروے کار لایا گیا تو زندگی اور ادب کے ایک اہم جز فنٹسی نے جنم لیا- اگر اس کے بارے میں سوچا جائے تو فنٹسی اور انسان کا  چولی دامن کا ساتھ ہے اور ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا اور پرانا تعلق ہے- پہلے دور کے انسانوں کی فنٹسئیس ایک تصوراتی ماضی سے وابستہ ہوتی تھیں عمرو عیار کی کہانیاں اور کوہ قاف کی پریاں مگر زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ انسان کے تصورات بھی بدل گئے ہیں آج کا انسان انھیں تصوراتی ماضی کی بجاے تصوراتی مستقبل کے حوالے سے دیکھتا ہے در حقیقت  پہلے  زمانوں کی طلسم ہوشربا اور آج کل کے دور کی جدید سائنس فلم اوتار ایک ہی  تصویر کے دو رخ ہیں-

بچے کسی معاشرے کا کل سرمایا ہوتے ہیں اور معاشرے کی ذہنی اور عمومی  تعمیر و تشکیل کی بنیاد  ہی اسی بات پر ہے کہ اس معاشرے کے بچے کس بارے میں سوچتے ہیں، کیا چیز انھیں متاثر کرتی ہے  اور ان کے کیسے خواب ہیں، یہی خواب یہی سوچ مستقبل میں  ایسے سائنسدان پیدا کرتی ہے جو ان خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیتے ہیں- سو سوچنے والی یہ بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں اور انھیں  کیسے خوابوں کا عادی بنا رہے ہیں ؟ یہ بات اسکول، گھر اور معاشرے تینوں پر منحصر ہے کہ بچوں کو کیسا ماحول فراہم کیا جا رہا ہے -

بچے "ٹام اینڈ جیری "بیٹ مین "، " سپر مین"، "سپائیڈر مین"، "بین ٹن"  اور "سینڈریلا"  کہانیوں کے کردار شوق سے دیکھتے ہیں اور ان میں استعمال ہونے والے زبان اور الفاظ بچوں کے کچے ذہنوں میں اثر انداز ہوتے ہیں اور ادھر سے ہی بچوں کے اندر دلچسپی، ایڈونچر، طاقت اور غیر فطری تصورات کے لئے جگہ بننا شروع ہو جاتی ہے-  آہستہ آہستہ بچے اسے حقیقی زندگی میں پرکھنا شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ سوتیلی ماؤں کے بارے میں ہر کہانی میں ایک ہی بات بتائی جاتی ہے کہ وہ بہت چالاک اور جابر ہوتی ہے یہ بات بچوں کہ ذہن میں بیٹھ جاتی ہے اور وہ ہر سوتیلی ماں کو اسی نوعیت سے پرکھتے ہیں-

مختلف معاشروں کے غیر تہذیبی اور غیر ملکی تخلیقی  کردار بچوں کے آئیڈیل بن چکے ہیں  اور بات صرف ٹیلی ویژن تک محدود نہیں رہی ہے یہ کردار کتاب اور ملبوسات کی شکلوں میں بھی بچوں کو گھیرے ہوے ہیں- یہ کمپنیز تو اپنے فائدے کے لئے ایسے ملبوسات بناتی ہیں مگر سرمایہ داروں کے اس صنعتی غبار میں نقصان بچوں کا ہی کہ  بچے اپنے مقامی کلچر اور قومی تاریخ کو بھول چکے ہیں- مار پیٹ اور اشتعال پسندی پروان چڑھ رہی ہے-

ہم میں سے کوئی شخص یا قوم اس جدید ٹیکنالوجی کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی- وقت کے ساتھ ہر ایک نے قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوتا ہے لیکن ہم کچھ ایسے اقدامات تو کر ہی سکتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم بچوں کو اپنی ثقافت سے باور بھی کروا سکتے ہیں اور انھیں وقت کے ساتھ چلنا بھی سکھا سکتے ہیں- اگر پرانے وقتوں کے زکوٹا جن اور آج کے بیٹ مین کو ملا کر ایک کردار تخلیق کیا جائے ، بچوں کی کتابوں میں غیر ملکی گیتوں کی بجاے ہمارے اپنے لوک گیت شامل کر دیے جائیں – بچوں کی کہانیوں میں مار پیٹ کی بجاے امن کا پیغام پہنچایا جائے  تاکہ  ہمارے بچے نیکی اور انصاف کے اصولوں کو فروغ دینے والے بنیں اور تباہی مچانے والے بن ٹن یا سپائیڈر مین کی جگہ ایک انسان کو اپنا آئیڈیل تصور کریں-  

 



About the author

Kiran-Rehman

M Kiran the defintion of simplicity and innocence ;p

Subscribe 0
160