وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف صاحب چھوٹےمیاں

Posted on at


گذشتہ سال یہی دن تھے جب وزیر اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف صاحب چھوٹے میاں اور میاں شہباز شریف حرف بڑے میاں جی ہر سٹیج پر بڑے بڑے دعوے اور وعدے کرتے نظر آتے تھے۔ ایک بھائی کہتا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کروں گا۔ تو دوسرا جذبات میں سچی بات کہہ دیتا کہ بجلی کو ہی ختم کروں گا ۔ کسی نے ذرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کی تو کسی نے کشکول توڑنے کے وعدے کیئے میاں صاحبان جہاں گئے وہاں پر کوئی نہ کوئی وعدہ کرکے آئے۔ ہزارہ میں قدم رکھا تو صوبہ ہزارہ یاد آگیا ۔ ہر جلسہ میں اپنے امیدواروں جو کہ لوٹوں کی فوج تھی ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے کہ صوبہ ہم بنائیں گے۔ ایکسپریس وے جو کہ پرویز مشرف کے دور کا منصوبہ ہے اس پر بھی نعرے لگتے رہے اور دعوے ہوتے رہے کسی نے کہا سال میں بنے گا تو کسی نے دوسال کا وعدہ کیا۔ متاثرین زلزلہ کے ساتھ بھی وعدے ہوتے رہے۔ وعدوں کے دن گزرے میاں صاحبان کو وزارت عظمیٰ اورتخت پنجاب کی سربراہی بھی مل گئی ، عوام ایک بار پھر ہار گئی اور مدار ی اپنی چالوں میں کامیاب ہوگئے۔ کامیاب ہونے کے بعد کسی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا الیکشن سے پہلے سالوں پرانی قبروں پر ان مردوں کے لواحقین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے جانے والوں نے جیتنے کے بعد اس عوام کا شکریہ تک ادا کرنا گوارہ نہ کیا ۔ صرف اخباری اشتہارات کی حدتک بعض نے چند کلمات اد اکر دیئے ۔ ملک سے نہ دہشت گردی ختم ہو سکی نہ لوڈ شیڈنگ ۔ وہ شہباز شریف جو کہتے تھے کہ چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیں آج قوم پھر بھی خاموش ہے چھ مہینے میں نواز حکومت نے لوڈشیڈنگ تو ختم ن ہ کی البتہ عوام سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا۔ الیکشن کے فوری بعد بڑے میاں نے چھوٹے میاں کے بجلی کے متعلق بیانات کو جذباتی بیان کہہ کر عوام کی امیدیں اسی وقت ہی ختم کر دی تھی اورانہں نے عوام کو اشارہ بھی دے دیا تھا کہ بجلی کا نعرہ اب اگلے الیکشن میں بھی استعمال کریں گے۔ آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ چھوٹے میاں ہر جلسے میں کہتے تھے کہ ذرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ مگر آج ؟ آج جب بڑے میاں کو فوجی جھوتوں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے تو سب سے پہلے مشاورت کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری سے مشاورت کی جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی ہویا مسلم لیگ ن یہ دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور انہوں نے جمہوریت کے نام پر ملک کوکنگال کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اگر یہ دونوں جماعتوں کے سربراہان اپنا پیسہ ملک میںلے آئیں تو ہمیں کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔ بڑے میاں صاحب کا وہ وعدے اور تقریر یں آج بھی مجھے یاد ہیں جب وہ کہتے تھے کہ ہم کشکول توڑ دیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس کسی صورت نہیں جائیں گے۔ وہ اکثر جوش میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے ۔

"اے طاہر لاہوتی اس روزق سے موت اچھی      جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"

مگر حکومت ملنے کے بعد وہ یہ سب بھی بھول گئے ، ہاں اتنا ضرور سچ ثابت کر دیا کہ چھوٹا کشکول توڑ دیا اور دس گناہ بڑا کشکول تھام کر پوری دنیا میں بھیک مانگنے نکل پڑے ۔ پاکستان کو ایم ایف کے پاس گروی رکھ لیا۔ اربوں ڈالر پاکستان میں قرض کی شکل میں لے آئے مگر عوام کو ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا۔ موبائل کارڈ سے لے کر ماچس اور سوئی تک یہ چارگناہ زیادہ جی ایس ٹی اور پتہ نہیں کون کون سے ٹیکس لگا دیئے گئے۔ بجلی کئی گناہ زیادہ مہنگی کی گئی ڈیزل اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائی گئیں کہ ڈالر مہنگا ہوگیا ہے اب ڈالر سستا بھی ہوا مگر عوام کو کئی ریلیف نہیں ملا ۔ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے اسی لئے حکومت 5سے 10 روپے فی لیٹر قیمت بڑھا دیتی ہے اور اب جب ڈالر 110 سے 98 پر آگیا مگر ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت میں صرف ایک روپیہ کمی کی گئی کیا یہ جمہوریت ہے؟ عوام کو جمہوریت سے کیا لینا دینا عوام کا مطلب تو صرف روٹی کپڑا اور مکان ہے جو کہ ہمیشہ جمہوری قوتوں نے عوام سے چھینا ہے۔ آمریت چاہے لاکھ درجے بری ہو مگر عوام کو ریلیف صرف آمریت میں ہی ملا ہے۔ ملک میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ فوجی حکومتوں کے دور میں ہی ہوئی ہے ایوب خان، جنرل ضیاءالحق اور پھر جنر ل پرویز مشرف کے دور میں ہزاروں ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے ڈیم بنائے گئے ۔ سکول ، کالجز، یونیورسٹیاں اور سڑکیں تعمیر کی گئی عوام کی معاشی حالت 100فیصد بہتر ہوئی مگر جمہوریت نے اور پاکستان کے موروثی سیاسی نظام نے ہمیشہ سے ہی اس ملک کو لوٹا۔ جس ملک کا صدر اور وزیر اعظم خود چوروں کے سرغنہ ہوں اس ملک میں بہتری کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ اس ملک کو آصف زرداری اور نواز شریف اور انکے حواریوں نے جتنا لوٹا ہے اور جس بے دردی سے لوٹا ہے تاریخ انکو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ آج یہ سب مل کر بھی اکیلے پرویز مشرف کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں طرح طرح کے جھوٹے کیسوں میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکے۔ جس ملک میں انصاف صرف بڑے لوگوں کے ساتھ ہو افتخار چوہدری کا بیٹا اربوں روپے لوٹنے کے بعد بھی بچ جائے اور ایک غریب مزدور کے بیٹے کو روٹی کا نوالہ چرانے پر بھی سزا دی جائے جس ملک میں ماں اپنے چھ چھ بچوں کو غربت سے تنگ آکر زہرپلا کر مار دے جس ملک میں تھر کے سحراﺅں میں سینکٹروں بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں اور حکمرانوں کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگے ۔ اور لاکھوں روپے صرف وزیر اعظم کے ایک ناشتے پہ لگ جائیں تو اس ملک کی نیاءکس طرح پار لگے گی ۔ ۔۔۔۔۔۔؟



About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160