کفایت شعا ری (حصہ اول )

Posted on at


دین فطرت اسلام نے ہر معاملہ میں افراط و تفریط سے بچنے کی تلقین کی ہے، اور بہر حال درمیانی راہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے-نبی کریم کا ارشاد پاک ہے کہ بہترین عمل وہ ہے،جیس میں اعتدال کی روش اپنی جاے –نبی کریم کی حیات مقدسہ توازن و اعتدال کے اسی حسن سے عبارت ہے – بقول شاعر :

وہ ممکنات جلال و جمال کے پیکر

وہ اعتدال کے سانچے میں عظمت آدم

حق بات،طریقہ اعتدال ہی میں پوشیدہ ہے-عد ل کا مفہوم یہی ہے کہ ترازو کا پلڑا اوپر ہو،اور نہ نیچے الله بزرگ و برتر نے انسان کو ان گنت صلاحیتوں سے نوازا ہے ،اور ان صلاحیتوں کو متوازن طور پر برؤے کار لانا انسان کا کام ہے-

انسانی قوت ،منہ زور ہو جاے تو ظلم و بر بر یت بن جاتی ہے –منہ کے بل گر جاے تو بزدلی ہو جاتی ہے –اصل روش تو درمیانی ہے ،جسے شجاحت کہتے ہیں-تعریف و ستائش حد سے بڑھے تو خوشامد کہلاے گی ،اور اگر حد سے گر جاے تو تنقیص و تذلیل بن جاے گی –اسی طرح اگر خدا نے انسان کو دولت و زر سے نوازا ہے ،اور اس کے صرف میں حد سے بڑھتا ہے،تو اس کا عمل اسراف کہلاے گا اور اگر حد سے گرتا ہے تو بات بخل تک پھنچ جاے گی- بے اعتدالی کا نتیجہ ہر مقام و موقع پر ذلت و رسوائی ہے –بزبان شاعر :

بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوے

                          ،اتنے ہی کم ھوے  جتنے زیادہ ہو گئے

کفایت شعا ری سے مراد ،یہی درمیانی روش ہے،یهنی اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلاے جایں-بلکہ چادر کو زیادہ پھیلایا جاے اور پاؤں کو کم ،کہ اسی میں سہولت اور راحت ہے-جو انسان اخراجات کے سلسلہ میں حد سے بڑھتا ہے،وہ خود کو انسانیت کے اعلی مقام سے گرا لیتا ہے،کیونکہ قران پاک میں صریحا ارشاد ہے کہ "فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں"-

اسلام زندگی کی نعمتوں سے جائز طور پر لطف اندوز ہونے سے منع نہیں کرتا ،بلکہ تلقین یہ ہے کہ کھاؤ،پیو مگر حد سے تجاوز نہ کرو-اب یہ ہمارا ذاتی فعل ہے کہ ہم مالی استطاعت ہونے کے باوجود خود کو قابو میں رکھتے ہیں،یہ بے قابو ہو کر شیطان کے بھائی بنتے ہیں اور الله پاک کی نظر میں مردود ٹھہرتے ہیں-



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160