ڈر

Posted on at


ڈر اورخوف یہ ایسے الفاظ ہیں جن سے ہم بخوبی آشنا ہیں اور روز مرہ زندگی میں ہمارا ان سے واسطہ پڑتا رہتا ہے . حقیقت میں ڈر سے مراد ہمارا وہ نفسیاتی قسم کا رویہ ہے جو کسی خطرے کا سامنا کرنے کی صورت میں ہمارے دماغ میں پیدا ہوتا ہے اور فوری طور پر انسانی دماغ اس کا سدباب کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کر لیتا ہے . خوف کی کیفیات نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں .ہر طرح کے حیوانات میں خطروں سے بچاؤ کے لئے خوف کی کیفیت قدرتی طور پر پائی جاتی ہے اور خاص بات تو یہ ہے کہ حیوانوں میں یہ کیفیت انسانوں سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور زود حس ہوتی ہے . انسانوں کی نسبت جانور آنے والے خطرے کی بو جلدی سونگھ لیتے ہیں . خوف کی بہت ساری اقسام ہیں ان میں کچھ کیفیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان کے لئے خاصی خطرناک ہیں یہ انسان کو نفسیاتی مریض بھی بنا دیتی ہیں . وجہ اسکی یہ ہے کہ کسی چیز کا ڈر اور خوف انسانی ذہن کے گوشے میں بیٹھ جاتا ہے اور اس بری طرح دماغ کو جکڑتا ہے کہ انسان کسی طور اس سے راہ فرار حاصل نہیں کر پاتا . اور یہی چیز آہستہ آہستہ اس کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے . مثال کے طور پر کچھ لوگ بلندی سے خوف کھاتے ہیں وہ جیسے ہی کسی بلند جگہ پر جائیں ان کا سر چکرانے لگتا ہے وہ ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ابھی نیچے جا گریں گے اور ایسا ہوا بھی ہے کہ دنیا میں ایسے واقعات پیش آئے ہیں کے بلندی کے خوف سے مغلوب ہو کر کچھ لوگوں نے خود بہ خود چھلانگ لگا دی اور موت سے ہمکنار ہوۓ . اس کے علاوہ کچھ لوگ پانی سے ڈرتے ہیں کچھ آسمانی بجلی سے اور کچھ بھوت پریت اور جنات کے ڈر میں متبلا ہوتے ہیں .  مگر ان سب سے بالاتر ایک چیز ہے کے یہ سب خوف اور ڈر کی کیفیات انسان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہیں اور اگر وہ چاہے تو با آسانی ان پر قابو پا سکتا ہے 



اس کے علاوہ اندھیرے کا خوف بھی انسانی سرشت میں شامل ہے مگر مقام افسوس یہ ہے کے ہم اندھیرے سے تو ڈرتے ہیں مگر جس ذات نے اندھیرے کو جنم دیا ہے اس سے ہرگز نہیں ڈرتے. ذات انسانی ایسی ہی نیرنگیوں کا مجموعہ ہے . انسان اندھرے سے تو ڈر جاتا ہے مگر اندھیرے کے مالک سے ہرگز نہیں ڈرتا . اس سب کے علاوہ آج کل جس رجحان نے ہمارے معاشرے میں فروغ پایا ہے وہ بچوں میں مختلف قسم کا ڈر پیدا کرنا ہے .  آج کل کی مائیں بچوں میں بھوت پریت اور اندھیرے کا ڈر پیدا کر دیتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ہماری نئی نسل انتہائی بزدل اور ڈرپوک قسم کی پیدا ہو رہی ہے . جس چیز کے خطرے اور نقصان کا سامان کرنے سے انسان گھبراتا ہے گزرتے وقت کے ساتھ وہی چیز خوف بن کے ہماری سرشت میں شامل ہو جاتی ہے . اس کی مثال شہری ماؤں سے لی جاتی ہیں جن کے پاس ڈرانے کے لئے بھوت پریت اور اندھیرا ہی ہوتا ہے حالانکہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سےخود بھی ڈرتی ہیں .  جن بابا آ جائے گا یا کتا کھا جائے گا ایسے جملے سن سن کر بچوں میں ان چیزوں سے متعلق خوف مستقل طور پر پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی اس خوف سے چھٹکارا نہیں پا سکتے . اور ایسی ہی چیزوں کا نتیجہ ہے کہ اب غلطی سے کہیں کوئی کاکروچ مٹر گشت کرتا ہوا کہیں گھر میں نکل آئے تو بچے تو بچے گھر کی خواتین بھی چیخیں مار کر بیڈ پر تشریف فرما ہو جاتی ہیں 



مگر کبھی کبھی یہ بات ذہن میں آ کر بہت ڈراتی ہے کہ جس ذات سے ڈرنا چاہیے اس سے ڈرنا کوئی آپ کو سکھاتا ہی نہیں . اور اس بات کا نتیجہ یوں نکلتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے خوف انسان کو سانپ کی مانند ڈراتے ہیں . اگرچہ ہمارے پاس موسیٰ کا عصا موجود ہے مگر پھر بھی ہم ان چھوٹے موٹے سانپوں سے خوف کھاتے ہیں . خدا سے محبت تو کسی نے کیا سکھانی تھی ہم کو تو اس سے ڈرنا بھی نہیں سکھایا جاتا .  چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈر ہم اپنے بچوں کی کسی تحفے کی طرح دے ڈالتے ہیں مگر یہ تحفہ دیگر تحائف کی نسبت بہت مختلف ہوتا ہے


  


****************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری


TAGS:


About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160