نظام امتحانات میں ناجائز ذرائع کا استمعال (حصہ اول(

Posted on at


جب بھی کسی شعبہ زندگی میں بعد عنوانیت اور نہ جائز ذرائع کا اندھا دھند استمال ایک معمولی بن جاتا ہے ،تو ضمیر کی خلش بتدریج کم ہو جاتی ہے ،یکسر ختم ہو جاتی ہے –اور معا شر ہ میں تباہی کا عمل تیزی سے شروع ہو جاتا ہے –تباہی کے اس عمل نہایت سر عت کے ساتھ مزید شدّت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تعلیم و تربیت میں پورے کا پورا شعبہ ان بعد عنوانیت کے اثر کو قبول کر لیتا ہے –ککی بھی معاشرے میں تعلیم کی نو عیت بینادی اور اساسی ہوتی ہے اور جب تعلیم اپنی افادیت کھو دیتی ہے تو معاشرہ کی ترقی کی تمام راہیں مسدود ہو کر رہ جاتی ہیں.آیندہ نسلیں اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں اور سماجی و معاشرتی سطح پر قوم کا تشخیص مجروح ہو جاتا ہے-

قوموں کے زوال اور تباہی کا نقطہ آغاز یہی ہے- اس سیاق و سباق میں اپنے امتحانی نظام میں ہونے والی بعد عنوانیوں کا ایک جائزہ لٹے ہیں-

امتحانی مراکز پر ایک نظر ڈالنے سے ہمیں اکثر مرکز میں ہیجانی کیفیت .نظم و ضبط کے فقدان اور اخلاقی گراوٹ کی گھناؤنی تصویر نظر اے گی –جن تعلیمی اداروں میں ایسے مراکز کیے جاتے ہیں وہاں پر طلبہ یونین کے اراکین کی عملی سرپرستی میں برونی عناصر کا ایک جام غفیر دیکھںے کو ملتا ہے- کہ جو دروازوں اور کھڑکیوں سے امتحانات میں استمال کی جانے والی "بوٹیاں " بڑی ڈھٹائی سے مہیا کر رہے ہوتے ہیں- یونین اور پریشر گروپ کے اراکین امتحانی مراکز میں داخل ہونا اپنا پیدائشی حق خیال کرتے ہیں –

جب کبھی کسی طالب علم سے ناجائز مواد برآمد ہو تو اس کی جواب طلبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا –کیونکہ ایسی صورت میں امتحانی مراکز میں ہنگامہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے- ناجائز ذرائع کے جوکیس بناے جاتے ہیں ان میں بڑی حکمت عملی استمال کی جاتی ہے – اگر نہ گزیر حالت میں بورڈ نہایت بدنام امتحانی مراکز کے پرچوں کو منسوخ کر کے دوبارہ امتحان لینے کا فیصلہ کرے ،تو یونین کے اراکین ہونے امتیازی نشان لگا کر ارباب اختیار کے پاس پھنچ جاتے ہیں،اور انھیں ایسے فیصلے منسوخ کرنے پر مجبور کرتے ہیں-وہ اپنی خاموش زبان میں ارباب اختیار کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مختلف مواقع پر ھماری مدد لی ہے تو اب ھماری بات نہ ماننے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160