استاد بولے اور بچے چپ۔۔! یہ کیا محاجرا ہے۔

Posted on at



استاد بولے اور بچے چپ۔۔! یہ کیا محاجرا ہے۔


میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے دلفریب شمالی حصے میں ایک پہاڑی پر واقع گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول میں موجود تھا۔ اسکول ایک وعیر احاطے اور صرف پانچ بڑے حال نما کمروں پر مشتمل تھا۔ اسکول کے پرنسپل اور اساتزہ اکرام ابھی ابھی ایک ریفریشرکورس سے فارغ ہوئے تھے جس کا موضوع بچے  کو اہمیت دینے والا طریقہ تعلیم  تھا۔ میں، اس ریفریشر کورس پرسنز میں شامل تھا۔




اسکول اور طلبا کے حالات کا قریبی  مشاہدہ  کرانے کے لیے پرنسپل اور اساتزہ نے مجھے اسکول میں مدعو کیا تھا۔ کھچھڑھی داڑھی والا نرم  گفتار پرنسپل تعلیم میں 35 سال کا تجربہ رکھتا تھا وہ مجھے ایک ہال نما کمرے میں لے گیا، مقص یہ تھا کہ میں اس صورتحال پر خود ملاحظہ کروں جس پر کورس کے دوران وہ اور اساتزہ میرے ساتھ بحث کرتے رہے تھے، نیز اسکول کے نیم تاریک اسٹاف روم میں بھی جس پر ہمارے درمیان گفتگو ہوچکی تھی۔ وہ موضوع کیا تھا۔؟
 ریفریشر کورس کیلئے میں نے جو پریپریشن کی تھی اس میں یہ بتایا تھا کہ طلبا کو سوال کرنے اور انہیں کلاس روم میں اساتزہ کے ساتھ گفتگو پر کس طرح راغب کیا جائے۔



میری پریزنٹیشن میں سرکاری اسکولوں میں رائج خاموش رہنے کی ثقافت ‘کا بھی زکر تھا اور یہ بھی کہ اسے کس طرح ’ دریافت کرنے کی ثقافت ‘ میں بدلا جائے تاکہ زہنوں کی تخلیقی، تنقیدی اور جدت پسندی پر مبنی پرورش کو یقینی بنایا جا سکے۔


 میری پریزنٹیشن میں بتایا گیا تھا کہ ’ خاموش رہنے کی ثقافت ‘ وہ ہے کہ جس میں
 ٭ ظلبا کو منطق جاننے کا کوئی حق نہیں ہوتا، جس کا مطلب ہے کہ انہیں اخلاقی اقدار، ثقافتی اقدار یا امتحانی تقاضوں کی آڑ میں شعوری یا غیر شعوری طور پر بولنے، پوچھنے، دریافت اور چیلنج کرنے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

٭ حقائق اور حقیقتوں کی ایک سمت طلبہ پر جبرا مسلط کر دی جاتی ہے ( حسن 2002ء)  جس کے باعث مقتدر شخصیات کی لیے حقائق کو کنٹرول اور ان کا استحصال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔




٭ تعلیم دینے کے مواد اور طریقہ کار دونوں میں عقیدے کی تلقین کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے (نیر اور سلیم 2004ء) اور طلبہ کا کام محض اسے ذہن نشیں کرنا ہوتا ہے۔
٭ ایسا ماحول تشکیل دیا جاتا ہے جس میں "رٹا لگانے والے طوطوں" کو بہترین طلبہ شمار کیا جاتا ہے (ہود بھائی 1998ء)۔

٭ ماحول میں یہ چیز رچی بسی ہوتی ہے کہ استدلال، عقلیت پسندی اور تجزیاتی سوچ کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے نہ صرف محدود سوچ کے حامل اور نوعیت کے لحاظ سے، یک رخے، ہوتے ہیں بلکہ جدید عالمی ماحول، ہر لحاظ سے ' یک رخے ' ہوتے ہیں۔ بلکہ جدید عالمی ماحول، ہر لحظہ بدلتی دنیا اور ہل پر مبنی معیشت میں وہ اجنبیت کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔



 تعلیم میں سرمایہ کاری اور اس کے مطابق ترجیح وہ کلید ہے جو پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس کیلئے ہم سب پر امید ہیں۔ کوئی بھی مستحکم، مساوی اور  متحمل معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ملک کے ہر ایک شہری کو معیاری تعلیم تک رسائی کے مواقع حاصل نہ ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے تعلیم کو اولین ترجیح دیں۔   
    


    
   



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160