پاکستانی معاشرہ اور پسند کی شادی

Posted on at


پاکستانی معاشرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے . اور اگر اس کا مقابلہ پرانے دنوں کے ساتھ کیا جائے تو حیرت انگیز قسم کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی. جسے کہ جنرل ضیاء کے دور میں ہمارا میڈیا اتنا بے لگام اور شتر بے مہار قسم کا نہیں تھا .بے پردگی اتنی زیادہ عام نہیں تھی . ٹیلی ویژن کے پروگراموں اور فلموں میں اس بات پر خاص توجہ دی جاتی تھی کہ کوئی نا مہذب قسم کا منظر سکرین پر نہ دکھایا جائے اور تو اور تب اخبارات بھی سینسر کی زد میں آتے تھے . اخلاقی اقدار اس قدر پامال نہیں ہوئی تھیں اور لوگوں کی نظروں میں شرم و حیا کا عنصر ابھی باقی تھا . مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ اخلاق و اقدار قصہ پارینہ بنتی چلی گیں . معاشرہ مزید ماڈرن ہوتا چلا گیا اور آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک شریف آدمی اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر اپنی پسند کے پروگرام بھی نہیں دیکھ سکتا . اشتہارات کی شکل میں ایسی ایسی اشیا کے اشتہارات سکرین پر دکھاۓ جاتے ہیں کہ بیٹی باپ سے اور باپ بیٹی سے نظریں چرا رہا ہوتا ہے .  اس کے علاوہ غیر ملکی چینلز کی بھرمار نے نوجوان نسل کو وقت سے پہلے جوان کر دیا ہے اور آج کل کے بچوں کو وہ سب کچھ پتا ہوتا ہے جو کہ ان کے بزرگوں کو بھی نہیں پتا 



اس سب کے بہت سے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی طرف بہت جلدی ملتفت ہو جاتے ہیں اور ایسی دوستیوں کے بہت سے مضر اثرات ہوتے ہیں . نوجوان نسل جوانی کے نشے میں ایسی بہت سی منازل طے کر لیتی ہے جس کی اسلامی معاشرے میں پوری طرح سے ممانعت ہے اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو پسند کی شادی کا رجحان تو پاکستان میں بہت تیزی سے ترقی کر چکا ہے . پچھلے کچھ عشروں سے ماں باپ کی مرضی سے شادی کرنے کی بجاۓ لڑکے لڑکیاں اپنی مرضی سے شادی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں . مگر یہ رجحان والدین کے لئے پسندیدہ نہیں ان کے خیال میں ذاتی پسند سے زیادہ خاندان کا نام ،کاروبار، ذات پات اور حسب نصب زیادہ اہم ہوتا ہے اس لئے وہ  اپنی اولاد کو اپنی پسند کا اختیار کم ہی دیتے ہیں . دیہات میں تو یہ چیز اور بھی زیادہ عام ہے کہ وہاں تو لڑکی لڑکے نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہوتا اور ان کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے اور شادی کی رات ہی دولہا اپنی دلہن کو دیکھتا ہے ہمارے اپنے والدین کی شادیاں ایسے ہی ہوئی ہیں اور سب کی سب بے حد کامیاب رہی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے نئی آنے والی نسل اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے اور خاص طور پر اپنی زندگی کے اس اہم فیصلے کا اختیار وہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور جب ماں باپ اس چیز کے لئے راضی نہیں ہوتے تو اولاد بغاوت کر دیتی ہے اور نتیجے کے طور پر فسادات جنم لیتے ہیں اور اکثر اوقات نوبت قتل و غارت پر بھی جا پہنچتی ہے 



آئے روز اخبارات میں ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کے پسند کی شادی کرنے پر لڑکی یا پھر لڑکے کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا . ہم سب یہ خبریں اکثر پڑھتے ہیں مگر پھر بھی اس رجحان میں بجاۓ کمی کے اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے .جھوٹی آنا اور فرسودہ روایات کی بھینٹ بہت سے جوڑے چڑھ جاتے ہیں مگر ارباب اختیار و اقتدار کے کان پر جون تک نہیں رینگتی نہ ہی کوئی ایسا ادارہ بنایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قانون نافذ کیا جاتا ہے جو اس قتل عام کو رکوا سکے 



ایسا ہی ایک واقعہ کچھ دن پیشتر ساہیوال شہر میں پیش آیا جب محبت کی شادی کرنے والی فرزانہ نامی لڑکی کو اس کے خاندان والوں نے شوہر سے زبردستی طلاق دلوانے کے بعد ایک رات بہیمانہ انداز میں قتل کر ڈالا . اور اس معصوم لڑکی کا جرم کیا تھا ؟ محبت ، جس کو پانے کے لئے اس بیچاری نے اپنی سی کوشش کی مگر سماج کے ظالم ٹھیکیداروں کو یہ جرم ایک آنکھ نہیں بھایا اور نتیجے کے طور پر ایک اور زندگی روایات کی بلی چڑھ گئ . یہ خبر میڈیا کی زینت بنی مگر کہیں کوئی سیمینار منعقد نہیں ہوا، کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، کہیں کسی نے کوئی ریلی نکلنے کی زحمت گوارا نہیں کی کیوں کہ ہم لوگ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ایسی خبروں پر دھیان دینا پسند نہیں کرتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا میڈیا بھی ایسی خبروں کو نمایاں جگہ نہیں دیتا .ہاں اس کی جگہ اگر انڈیا میں کسی ایکٹریس کو چھینک بھی آئ ہو تو میڈیا میں طوفان مچ جاتا ہے . ہم لوگوں میں جب تک احساس پیدا نہیں ہو جاتا ایسی بہت سی فرزاناؤں کو شائد ایسے ہی فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھنا پڑے گا


*********************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160