معاشی مساوات

Posted on at


معاشی مساوات


وطن عزیز پاکستان میں خصوصاً اور تقریباً ساری دنیا میں عموماً محنت کش طبقہ کو معاشرے میں  کلیدی کردار کی حثیت سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان میں   محنت کش طبقہ ستر سے اسی فیصد ہے اور اس محنت کش طبقے میں چالیس فیصد ایسے لوگ ہیں جو معاشرے میں انتہائی ادنی درجے کے طبقے میں شمار ہوتے ہیں اور اپنی زندگیاں کسما پرسی کی حالت میں گزار رہے ہیں۔ غریب ہونا کوئی گالی نہیں لیکن معاشرے میں ہر فرد کا ایک کردار ہے کوئی امارت سنبھالتا ہے اور کوئی صنعت کوئی ہنر کے بل بوتے اور بازو کی طاقت سے روزی کماتا ہے اگر یہ سب عزت و وقار کے دائرے میں ہو تو دنیا میں آنے کا مقصد پورا ہوتا نظر آتا ہے۔  جنگ عظیم دوئم سے پہلے دنیا میں بادشاہت تھی اور جتنا استحصال بادشاہت کے دور میں محنت کش طبقے کا ہوا اس کی مثال دینا مشکل ہے۔  بادشاہت میں اس طبقے کو رعایا کی حثیت حاصل ہوتی تھی جو تمام انسانی حقوق سے مبرا تھی۔ رعایا کا باشاہی نظام میں وفادار اور اطاعت گزار ہونا لازمی تھا۔   فرنگی راج کے دور میں محنت کش طبقے کو کنڑول کرنے کے لئے جاگیردار کا کردار بہت اہم تھا ، بادشاہ ، جاگیردار کو ہزاروں ایکڑ زمین نوازتا تھا جس کے بدلنے جاگیردار اپنے ماتحت کسانوں ، ہنرمندوں ، مزدوروں سے مالیہ لے کر خزانے میں جمع کرواتا اور ضرورت پڑنے پر بادشاہ کے لئے فوج بھی اسی محنت کش طبقے سے لی جاتی تھی جو جاگیردار کے فرائض منصبی میں تھی۔



جاگیردارانہ نظام نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات حاصل کیں اس کی ترقی یافتہ شکل سرمایہ دارانہ نظام ہے۔  اس نظام کی جڑیں دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔  اس نظام سے وابستہ طبقے کو صحیح معنوں میں اگر استحصالی طبقہ کہا جائے تو کوئی حرج نہ ہو گا۔


جاگیردارنہ نظام کو فروغ یا سرمایہ دارنہ نظام کو فروغ  دونوں نظام ہی محنت کش طبقے کے لئے زہر قاتل ہیں۔  مصدقہ رپوٹ کے مطابق وطن عزیز میں پانچ سو کے لگ بگ خاندان جو سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں   اسی فیصد باقی ماندہ طبقے پر طاقت رکھتے  ہیں اور اُن کا استحصال کر رہے ہیں۔  غریب کے خون پسنے کی محنت کا سودا بہت سستا لے رہے ہیں۔ 



سرمایہ دارنہ نظام کا ایک مثبت پہلو بھی ہے اس میں غریب اس وقت تک غریب رہے گا جب تک وہ اپنے اندر کی سوئی ہوئی صلاحیت کو بیدار نہیں کرئے گا۔ اس کو شاطر بھی بنا پڑے گا، دنیاوی تعلیم و ہنر بھی سیکھنا پڑے گا اور اپنے ذوق و شوق کا معیار بھی بلند رکھنا پڑے گا۔ اس چیز نے مغرب اور امریکہ میں مقابلے کی فضا کو پروان چڑہایا میعاری پیشہ وارنہ تعلیم کو فروغ ملا محنت کش کو اس کے کام کا مناسب معاوضہ بھی ملنے گا اور معاشرے میں معاشی  مساوات و توازن قائم ہوا اور یکم مئی کو ہر سال محنت کشوں کا دن بھی اس تجدید عہد کے لئے منایا جاتا ہے جو اٹھارویں صدی میں امریکی محنت کش طبقے نے اپنے بنیادی حقوق پختہ عزم سے امریکی سرمایہ دار سے لئے اور امریکی قوانین میں عبارت کروایں اور اسی کے تحت ایک مزدور کو روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کی اجازت ملی اور اس سے زیادہ وقت لگانے کی صورت میں اضافی اجرت کی منظوری کی گئی۔


  بادشاہت کے دور میں مذہب کی آڑ  میں غریب کوقناعت پر راغب کیا جاتا تھااور اس کا نظریہ راسخ کیا جاتا تھا کہ غربت اور امارت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مغرب میں اٹھارویں صدی تک وہاں کے لوگوں کا خوب استحصال کیا جب محنت کش طبقے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا جو  فرانس کے انقلاب  کا موجب بنا کلیسا کو اپنے پاؤ تلے مسل دیا اور اس کا کردار گرجے تک محدود کر دیا۔



پاکستان میں کوئی شک نہیں کہ محنت کش کی اجرت اتنی بھی نہیں جس سے وہ اپنی بنیادی ضرویات زندگی کو پورا کر سکے۔  جاگیردار کے بعد اس کی جگہ سرمایہ کار نے لے لی ہے۔  ملوں ، کارخانوں میں کام کرنے والوالے محنت کشوں کا معاوضہ بہت کم ہے اور اس کے خون پسینہ کی محنت سے حاصل منافع سرمایہ دار کو جاتا ہے جب کہ غریب کو اگر دو وقت کی روٹی مل جائے تو غنیمت ہو گی۔



ساری دنیا سے غریب اور امارت کا فرق ختم کیا جارہا ہے لیکن ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر کوئی بھی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا کیونکہ حکومت کے اندر ہی بیٹھی ہوئی لابی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ہے اگر وہ اس کو ختم کر دے تو اُن کی امرا شاہی متاثر ہو سکتی ہے ۔ لیکن اس حقیقت کو جھوٹلا کر وقتی طور پر تسلسل حکمرانی کو برقرار تو رکھا جا سکے گا مگر  اصل طاقت کا منبع تو خیر عوام ہی ہیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ  اسی وقت ممکن ہے جب محنت کش طبقے کو مساوات و توازن کی بنیاد پر حقوق دیئے جائے ۔ دبا کر اور استحصال سے معاشرہ صرف ذہنی جمود کا ہی شکار ہوتا ہے  جس سے قوم کی ترقی میں ٹھیراؤ آ جاتا ہے اور غلامیت کے طوق میں لپٹ جاتی ہیں۔  جب کہ حکمران   لذت حکومت کو برقرار رکھنے کی خاطر کسی بھی سودے بازی سے دریغ نہیں کرتے اور اس ناسور سے نکلنے کا راستہ علم و شعور کا فروغ ہے اور دانشور ، قلم کار و لکھاری ، ادیب ، معلم کا فعال کردار ہو گا۔ 



اس کے ساتھ ساتھ فلم انیکس کے پیلٹ فارم سے میں اپنے دوستوں ساتھیوں سے گوش گزار ہوں گا اپنے آس پاس ، پڑوس ، محلہ کے بچوں کو بلااجرت تعلیم و شعور دینے کا اہتمام کرے جب یہ روشنی محلوں سے نکل کر قصبوں ، شہروں تک پھیل جائے گی آپ خود ہی اس کے ثمرات کو محسوس کرنے لگے گے قوم کا مستقبل روشن و تابندہ۔


 



160