سائنسی ایجادات میں مسلمانوں کا زوال - دوسرا حصہ

Posted on at


ہم دیکھیں تو روس کے ایک چھوٹے سے علاقے کے ١٧ سائنس دان نوبل انعام کے لئے نامزد ہو گئے مگر پچھلے کئی عشروں سے پاکستان کے کسی سائنس دان کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوا . نوبل انعام کے لئے نامزد ہونا تو بہت دور کی بات ہے پاکستان کے کسی ایک بھی سائنس دان کا نام ملک کے اندر ہی سننے میں نہیں آیا جبکہ بین الاقوامی سطح پر کوئی کارنامہ سر انجام دینا تو بہت دور کی بات ہے . پاکستان اس وقت بدقسمتی کی انتہا پر موجود ہے ہمارے ملک میں ١١٤ ادارے موجود ہیں جن میں سے ٢٠ اداروں کا تعلق تحقیق سے ہے زراعت کے شعبے میں تحقیق کے دو کافی بڑے ادارے پی اے آر سی اور این اے آر سی جسے بڑے نام بھی انہی اداروں میں شامل ہیں اور ان سب اداروں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کنٹرول کرتی ہے . ہر سال فنڈز کی مد میں اربوں روپے ان اداروں کو ملتے ہیں اور ١٦ ہزار افراد ان اداروں میں کام کرتے ہیں مگر ٤ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ ادارے کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکے . ان اداروں کا بجٹ کا ٩٣ فی صد حصہ ان ملازمین کی مراعات پر خرچ کر دیا جاتا ہے غیر ملکی سفر بھی یہ لوگ سرکاری خرچ پر ہی کرتے ہیں المیہ یہ ہے کہ بجٹ کا صرف ٣ فی صد سائنس کی تحقیق کے لئے استعمال ہوتا ہے 



دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنے زیادہ فنڈز اور اتنی مراعات کے باوجود یہ نام نہاد ادارے فصلوں کے لئے کوئی اچھا بیج تک تیار نہیں کر سکے . کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہ ملک اپنی کپاس ،گندم اور آلو کا بیج باہر سے منگواتا ہے . آلو کا مقامی طور پر تیار کردہ بیج باہر کے بیج سے دو گنا زیادہ قیمت پر پاکستان میں دستیاب ہے تو کون امپورٹڈ بیج کو چھوڑ کر مقامی بیج خریدنا پسند کرے گا؟ . ہر سال کئی کروڑ روپے کپاس کے بیج کی خرید میں ضائع ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہم وہ باہر سے منگواتے ہیں . ہماری ریسرچ کے ادارے پچھلے 40 سالوں سے تحقیق میں مصروف ہیں مگر آج تک کوئی ایک ایسا آلہ نہیں بنا سکے جو کسانوں کی مدد کرسکے . پانی اور آبپاشی کا نظام بھی وہی فرسودہ ہے جو آج سے ٥٠ سال پہلے تھا . اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے کوئی طریقہ نہیں سوچا جاسکا . پچھلے ١٥ سالوں سے پاکستان توانائی اور لوڈشیڈنگ جسے مسائل کا شکار ہے مگر اسکا کوئی حل نہیں ڈھونڈا جا سکا . حالانکہ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دن میں ١٦ گھنٹے سورج کی روشنی موجود ہوتی ہے مگر ہم اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھا پاۓ . پاکستان کی ٧٠ فی صد آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی ہوتے ہیں اور ان جانوروں کا گوبر ٹھکانے لگانا مشکل ہوتا ہے حالانکہ اس سے بائیو گیس کے پلانٹ بنا کر توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے 



اس کے مقابلے میں غیر ملکیوں کی کی ہوئی اور آنے والی ایجادات کا احوال دیکھیں تو خود ہی شرم آجاۓ گی . آئیں ان کا مختصر جائزہ لیتے ہیں . آئندہ آنے والے موبائل بنا بیٹری کے بناۓ جائیں گے اور یہ انسانی جسم میں موجود بجلی سے چارج ہونگے . آج کل تو ہم اپنا موبائل چارج کرنے کے لئے بھی واپڈا کے رحم و کرم پر ہیں اس ایجاد سے  کم سے کم اتنا فائدہ تو ہوگا کے واپڈا کی چاکری سے جان چھوٹ جاۓ گی . اس کے علاوہ چین اور امریکہ میں ایک ایسا خاص قسم کا کپڑا ایجاد کرنے پر کام ہو رہا ہے جس کو پہن کر انسان دوسروں کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکے گا . بغیر پروں والا پنکھا بھی امریکہ کی مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے . آپکو شائد میری ذہنی حالت پر شک گزرے کے پنکھا بھی بنا پروں والا ممکن ہے ؟ مگر جی ہاں یہ سچ ہے کہ ایسا پنکھا نہ صرف موجود ہے بلکہ ٣٠٠ ڈالر خرچ کر آپ اس کو خرید بھی سکتے ہیں .  اس پنکھے کی ہوا بھی عام پنکھوں کی نسبت زیادہ تیز اور ٹھنڈی ہوتی ہے اور یہ زیادہ محفوظ بھی ہے کیوں کہ پروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بچے اپنی انگلیاں بھی زخمی نہیں کر پاتے . یہ تو آج کا حال ہے آپ کل کا انتظار کریں بہت کچھ ایسا آ جاۓ گا جو آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا



************************************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری


 



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160