(جشن آزادی – ١٤ اگست، ١٩٤٧ (پارٹ اول

Posted on at


١٤ اگست کا دن تھا اور پوری قوم جشن آزادی منا رہی تھی- ١٤ اگست ١٩٤٧ کو ہم انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوے تھے- لیکن جشن آزادی کی تعریف سے ہی نا آشنا ہیں- ان غلاموں کو پتہ ہی نہیں آزاد کسے کہتے ہیں-


آزاد وہ شخص اور قوم ہے جس پر الله کے علاوہ کسی اور کا حکم نہ چلتا ہو، جو الله کے سوا کسی اور کے آگے نہ جھکتی ہو- یہ آزادی کا جشن منانے والے ہزاروں نہیں لاکھوں کے سامنے جھکتے ہیں- انہیں جشن آزادی منانے کا حق کس نے دیا؟ یقین نہیں آتا تو ہر شھر میں ماجود درباروں کا چکر لگا کر دیکھو، کتنے لوگ ہیں جو وہاں جھکے ھوے ہیں؟ کوئی قبر کو سجدہ کر رہا ہے تو کوئی اس قبر کو چوم رہا ہے، قبر کی مٹی کو چاٹ رہا ہے، وہاں پر رکھا نمک کھا رہا ہے- یہ مردوں کے غلام، مردوں سے خوف کھانے والے، مردوں سے امید باندھنے والے اور ان پر توکل کرتے ہیں- انہیں آزادی کا کیا پتا؟؟ آزاد تو وو قوم ہوتی ہے جس کے سر الله کے سوا کسی کے اگے نہ جھکتے، جو امید بھی الله سے کرتے ہیں اور توکل بے اس پر کرتے ہیں- اس غلام قوم کا آزادی سے کیا تعلق؟؟؟


١٩٤٧ میں انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی اے جشن آزادی منانے والو!!! یہ تو بتاؤ تم پر قانون کس کا چلتا ہے؟ کیا British Law and Indian Law تمہارے ہی ملک کا قانون نہیں؟ تمہارا سر تو پارلیمنٹ کے ممبران کے بناۓ ھوے قانون کے اگے جھکتا ہے- آزاد قوم تو وہ ہوا کرتی ہے، جو الله کا نعرہ لگاۓ- جس کا قانون زمین پر رھنے والے نہ بنایں، بلکہ اس کا قانون آسمان سے الله نے نازل فرمایا ہو، جو جبرئیل کا زریعے ہمارے نبی پر نازل ہوا، جس قانون پر عمل کر کے صحابہ پوری دنیا پر حکمران رہے-


اور سن لو! جس ملک کا قانون انسانوں کا بنایا ہوا ہو، اس ملک کے باسی آزاد نہیں علام ہوآ کرتے ہیں- پھر قانون بھی اس قانون کے مخالف ہو جو الله نے نازل کیا ہو- اسے قانون کو طاغوت کا قانون کہا جاتا ہے- سنو! الله کے قانون میں شرک کی کوئی گنجاش ہی نہیں- اس قانون کی پھیلی شرط ہی لاالہ الا الله ہے- اور تمہارے قانون میں شرک کے اڈوں کی نگرانی کے لئے محکمہ اوقاف قائم ہے،جو درباروں پر قائم بہشتی دروازہ کھولتی ہے، جو دباروں پر جمع شدہ قبر والوں کے نام کی نذرونیاز اکھٹا کرتی ہے-



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160