آزاد ذرائع ابلاغ

Posted on at


آزاد ذرائع ابلاغ    


ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمال خبروں کے ذریعے ہیں جو کسی ملک کے عوام کو خبروں کی ترسیل کرتے ہیں جو اخبارات ، رسائل خطوط و کتب، الیکڑانک میڈیا، سوشل میڈیا کی صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔  خطوط و  کتب  کی اشاعت پرانی ہیں جبکہ  جوں جوں تہذیبوں نے ترقی کی عوام تک تازہ حالات و واقعات کو بروقت اور آسانی سے پہنچانے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا جسے بعد میں باقائدہ صنعت کا درجہ بھی ملا، پہلا انگریز دور کا اخبار ساڑھے تین سو سال پہلے یعنی 1665 میں شائع ہوا تھا جسے آکسفورڈ گزٹ کا نام دیا گیا۔  اُردو کا پہلا اخبار جو ہندوستان میں فرنگی راج میں باقائدہ شائع ہوا اس کا نام جام جہاں نما تھا۔



ذرائع ابلاغ کو کسی بھی ملک کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا کردار عوامی  علم و شعور اور ملکی سیاست  کے حوالے سے بڑا اہم رہا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک میں سماجی و معاشی ترقی کا راز بھی آزاد زرائع ابلاغ کو گراناتے ہیں۔ کیونکہ اسی کی بدولت عوام لمحہ بہ لمحہ ملکی و بین الاقوامی خبروں اور رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رہتے ہیں۔ عوام کا ملک کے حکمران و انتظامیہ کے ساتھ تعلق و جوڑ اور سماجی رشتہ انہی کی مرہون منت ہے۔ 


آزاد میڈیا کا کردار کسی ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے۔ خصوصاً وہ ملک جہاں پر جمہوریت کا نظام حکومت ہے ، کیونکہ عوام کی خواہشات  اور درپیش  مشکلات کے تدارک کی حکومت تک آگائی میں آزاد ذرائع ابلاغ کر کردار کسی سے ڈھکا چپا نہیں۔



پاکستان میں ذرائع ابلاغ بیسویں صدی تک مصائب میں گرا تھا۔ کیونکہ ملک کے نظم و نسق کا اکثر دور فوجی حکومت میں گزرا جس نے ذرائع ابلاغ کو قید کیا ہوا تھا۔ آزاد صحافت اور سچی خبر کی عدم دستیابی کی وجہ سے حکومت کے منفی کارہائے نامہ پر پردہ پڑا تھا۔  جس کی وجہ سے ملک میں میڈیا کی ترقی کے ساتھ ملکی کی معاشی ترقی بھی جمہود  کا شکار تھی اور محدود تھی۔ عوام میں سیاسی و فکری بصریت نہ ہونے کے برابر تھی۔  عوام ملکی حالات و واقعات سے باشعور نہیں تھے۔ عوام کی فکری بصیرت اشیاء خوردونوش اور اشیاء ضروریات زندگی تک محدود تھی۔  تہذیب و تمدن ، رہن سہن اور ملک میں آبادی کے  بڑھنے کے ساتھ ساتھ عوامی ضرویات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔  اس کی بنیادی وجہ عوام کی آواز کی حکومتی ایوانوں تک عدم رسائی تھی۔   میڈیا کا کرار بہت محدود پیمانے پر تھا اور جو تھا وہ حکومت کے زہر اثر تھا جو حکومت کے ہی کارہائے نامے بیان کرتے اس دور میں کالم نویس و ادیب و دانشور وہی تھے جو حکومت کے زہر نگین رہتے ہوئے اپنا اظہار راہے بیان کر سکے۔



سارا زمانہ ایک سا نہیں رہتا عروج و زوال ہر تہذیب کا خاصہ رہا ہے۔  ضیاء الحق کے دور حکومت کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ہی ملک میں جنرل الیکشن کا اعلان ہوا ،دبی ہوئی جمہوری سیاسی پارٹیاں  ابھرنا شروع ہوئی اور ملک میں عوامی طاقت کے بیج سے جمہوریت کا نازک پودا پنپنے لگا۔ ان جمہوری سیاسی پارٹیوں کے منشور میں آزاد میڈیا کا قیام ہٹ لسٹ پر تھا جسے باقائدہ صنعت کا درجہ بھی دیا گیا۔ ادیب ، کالم کار، لکھاری ، صحافی اور دانشور اپنا اور عوام کا نقظہ نظر حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کے لئے آزاد تھا۔ عوام کے منتخب نمائندے عوام کی راسائی میں آ گئے۔  عوامی نمائںدوں کے انتخاب میں اب کافی حد تک شعور و آگائی بھی آ گئی ہے۔ جمہوریت کا یہ نازک پودا وقت اور حالات کی گرم و ٹھنڈی، تیز و تند آب و ہوا تو ابھی تک سہ رہا ہے لیکن خدا نخواستہ اگر اس طوفان پا سے اس کو نقصان ہو گیا تو ملک ایک بار بھی لا شعوریت و لاعلمی اور سیاسی عدم بصریت کے گپ اندھیر میں ڈوب جائے گا اور قوم ایک بار پھر اشیائے ضرروت تک ہی محدود ہو جائے گی۔



160