ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوے لڑکیوں کے ہاسٹل کے پاس پہچ گے دوپہر کا وقت تھا بہت تیز دھوپ تھی اور انتہا کی گرمی پڑ رہی تھی ہم نے دو آدمیوں سے لفٹ بھی مانگی لیکن کسی نے ہمیں مین گیٹ تک نہیں چھوڑا
ہم لڑکیوں کو دیکھتے ہوے یونیورسٹی کے باءیو پارک تک آ گے پارک کے اندر لڑکے اور لڑکیاں آپس میں مزاق کر رہے تھے اسی وقت یونیورسٹی کی بسیں بھی چل پڑی ہم ان بسوں کو دیکھتے ہوے چل رہے تھے اس تام ہم مین گیٹ سے ٹھورا سا دور تھے۔تقریبا ساری بسیں یونیورسٹی سے باہر جا چکی تھی اور ہم بھی مین گیٹ پر پہچ چکے تھے مین گیٹ پر ہم نے ٹھنڈا پانی پیا اور پھر ہم لوگ پنچر والی شاپ پر چلے گے جہاں پر مبشر موٹرسائیکل کو پنچر لگوا رہا تھا موٹرسائیکل کو پنچر لگ گیا تھا پھر ہم لوگ موٹرسائیکل پر بیٹھ گے اور پھر میں نے کہا کہ یار بھوک لگی ہے کسی جگہ سے دوپہر کا کھانا کھاتے پھر ہم لوگ این ایل سی بای پاس سے ہوتے ہوے چوک قزافی پہچ گے
ہم لوگ ایک ہوٹل میں گے جس کا نام لاثانی چرغہ بروسٹ تھا ہوٹل کا ماحول صآف ستھرا تھا ہم نے منہ وغیرہ دھویا اور ویٹر کو آڈر دیا ہم نے دال اور قورمے کی دو پلیٹ کا آڈر دیا ہم نے سکون سے کھانا کھایا اس دوران ہم لوگوں نے تقریبا بارہ سے پندرہ رروٹیاں کھای ہم نے تین بوتلوں کا آڈر دیا تو ویٹر نے کہا کہ بوتل ختم ہوگی ہے
ہم نے کھانا کھایا اور کھانے کا بل دیا بل 300روپے کابنا اور پھر جہانزیب نے چوک قزافی سے ہی پوتلیں پلای اور بوتل پینے کے بعد ہم لوگ وہاں سے چلے تو مبشر موٹرسائیکل کو جناح مارکیٹ کی طرف موڑ لیا وہاں سے مبشر نے دو اور میں نے ایک شرٹ لی جس کا ٹوٹل بل 1150 بنا تھا اس کے بعد ہم نے جہانزیب کو
اس کے گھر چھوڑا اور پھر ہم چل پڑے پھر ہم لوگ ممتازآباد مارکیٹ چلے گے جہاں پر میں نے اور مبشر نے انناس کا جوس پیا پھر اس نے مجھے میرے گھر چھوڑا اور وہ اپنے گھر چلا گیا یہ میری آج کی ذلالت سے
بھر پور اور انجوے والی کہانی تھی