فکری مغالطے، اور نظریاتی کجروی

Posted on at


سیاست کے بازار میں بظاہر مندی کا رجحان غالب نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے ، عوامی جمہوریہ یا اسلامی جمہوریہ کی بحث سے قطع نظر ، پاکستان کم از کم ایک جمہوریہ ضرور ہے ، اور جمہوری ریاست کی روح عوام کی خواہشات اور امنگوں یعنی Public Will سے تعبیر ہوتی ہے، عام شہری کسی سیاسی دھرنے میں بیٹھا ہو ، کسی کارخانے کی مشین چلا رہا ہو ، بازار میں ریڑھی لگائے بیٹھا ہو یا کسی دفتر میں نیلی پیلی اور سبز رنگ کی فائلوں کے انبار میں گھرا ہو ، Public Will ایک ہی ہوتی ہے ، ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اقتدار اعلیٰ ناقابل تقسیم ہوتا ہے ، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ عوام کی خواہش بھی ناقابل تقسیم ہوتی ہے ، عوام اپنی سیاسی وابستگیوں کے باوجود ایک جیسی امنگیں رکھتے ہیں کیونکہ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور انہیں ریاست سے ہمیشہ یہی توقع ہوتی ہے وہ انکی بنیادی ضرورتیں اور بنیادی حقوق بہم پہنچائے ،، یہ انکے بنیادی حقوق کا شعور ہی تو تھا جوعوام کو سکہ بند سیاست دانوں سے متنفر کر کے نو واردان سیاست یعنی عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کی طرف کشا ں کشاں لے گیا، 
اقبال کے اس شعر کا مفہوم بہت سے لوگوں پر ایک نئے زاویئے سے کھل چکا ہو گا کہ جس میں انہوں کہا تھا کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں ،،، بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ،،، یہ شعر اگرچہ جمہوریت کے جدید تصور سے لگا نہیں کھاتا لیکن اسکا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ بنادی حقوق سے محروم عوام الناس جنہیں پہلے صرف گنا جاتا تھا اور پارلیمنٹ ہاؤس میں نگ پورے کر کے حکومت بنا لی جاتی تھی ، ریڈ زون میں سجنے والے دھرنوں نے عوام کے شعور کو ایسا چھنجھوڑا ہے کہ ان مجبور لوگوں نے اب سیاست دانوں کو تولنا شروع کر دیا ہے ، سیاسی جماعتیں جن کا بنیادی فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا بند و بست کریں ، انہوں نے عوام کو اسکی بجائے مغالطوں میں الجھائے رکھا ، اور خود نظریاتی کجرویوں میں مگن رہے ، سیاست میں مفاہمت کی پالیسی پر کمال مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیرا رہنے والے رہنماؤں نے اب تک یہ نہیں سوچا کہ انکی پالیسیوں اور انکے اپنے کارکنوں کی سوچ اور ترجیحات میں بھی ہم آہنگی ہے کہ نہیں، ٹوٹتی بنتی حکومتوں کے عادی عوام الناس کو کبھی حقیقی تبدیلی کی خواہش کا حق نہیں دیا گیا ، سٹیٹس کو کو توڑنے کی کوششوں کو طوائف الملوکی یعنی انارکی قرار دے کر سیاسی کارکنوں کے نظریاتی فشار خون کو پست کرنے کے لئے حکمران جماعتیں نت نئے حربے آزما رہی ہیں ، لیکن حکمران جماعتوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ کچھ حقائق ایسے ہوتے ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بالکونی میں کھڑے ہو کر دیکھنے سے دکھائی نہیں دیتے ، ان حقائق کا تماشا کرنے کے لئے ان بالکونیوں سے نیچے اتر نا پڑتا ہے ، جن لوگوں کی دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی انکے لئے حکومت کی آئینی مدت پورا ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی ، 
تبدیلی کا لفظ لوگوں کا ایک خواب بن چکا ہے ،،عمران کان اور طاہر القادری جو اپنے اپنے کنٹینروں پر سجائے گئے سٹیجوں پر کھڑے ہو کر اپنے اپنے برینڈ کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں شاید انہیں بھی یقین نہ آئے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے ، سب سے بڑی تبدیلی تو یہ سامنے آئی ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر حزب اقتدار اور حزب اختلاف شیر و شکر ہو چکے ہیں اور اپوزیشن پارلیمنٹ سے باہر آ کر ریڈ زون سے ہوتے ہوئے دھوبی گھاٹ اور منٹو پارک جیسے میدانوں میں ڈیرے ڈال رہی ہے،پاکستان میں سیاسی عمل گزشتہ کئی سالوں سے سیاست دانوں کی باہمی مفاہمت کی شکل میں تو جاری رہا ہے لیکن عوامی سیاسی عمل در اصل ابھی شروع ہو ہے، اسمبلی ہال میں کورم پورا نہ ہونے کی بناء پر سیاست دانوں کو اسمبلی کے اندر لانے کی غرض سے گھنٹیاں بجائی جاتی تھیں ان سے تو سب لوگ واقف ہیں لیکن اب حکمران جماعتوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں ، گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ داکٹر طاہر القادری کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر حکومت سکھ کا سانس لیتی نظر آتی ہے لیکن وہ چین کی بنسی بجا سکتی ہے یا نہیں یہ چند دنوں میں واضح ہو سکتا ہے ، کیونکہ طاہر القادری نے دھرنے کو انقلابی جلسوں کی شکل دنے کا اعلان کیا ہے ، بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک طاہر القادری کے اس اعلان کو پسپائی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ، اگر طاہر القادری کینڈا چلے جائیں اور عمران خان بنی گالہ تواسے ضرور انکی پسپائی کہا جا سکتا ہے ۔
لیکن سیاسی تحریکوں کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ جب بیٹھے ہوئے لوگ اٹھ کھڑے ہوں تو وہ زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں ، حالات کا اشارہ تو یہ ہے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے ایک منظم سیاسی ابھار کی شکل اختیار کر سکتے ہیں ، ۱۹۶۷ء ، ۱۹۷۷، کی تحریکیں اور ۸۰ کی دہائی میں چلنے والی ایم آر ڈی کی تحریک اگرچہ مختلف حالات و واقعات میں شروع ہوئیں لیکن انکے Mechanism ایک جیسے تھے ، یہ وہ سیاسی ابھار تھے جو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے فقدان کے باوجود اپنے منطقی انجام تک پہنچے ، ان تینوں سیاسی ابھاروں کو
مضبوط سیاسی و فوجی حکمرانوں کا سامنا تھا ، اور ان تینوں تحریکوں کے نتیجے میں ( مثب یا منفی) بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ، موجودہ تحریک ایک منفرد نوعیت کی حامل نظر آتی ہے ، جو در حقیقت کوئی انقلابی تحریک نہیں لیکن اس تحریک کے نتیجے میں تبدیلی سے انکار کیا جا سکتا ، سب سے اہم تبدیلی تو یہ ہے کہ لوگوں کا طرز فکر تبدیل ہو رہا ہے ، سیاست دان نظریاتی کجری کی روش تبدیل کریں یا نہ کریں عوام الناس فکری اور سیاسی مغالطوں کو تیاگنے پر تیار ہیں۔

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160