بڑی عید اور قربانی (حصہ دوئم

Posted on at


بدلتے معاشی و معاشرتی رویے ہمارے تہواروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ دوسری طرف طبقہ اعلٰی سے تعلق رکھنے والے انہی کے بھائی لاکھوں روپے کا جانور صرف دکھاوے اور شہرت کے لئے خریدنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ عید کے پر رونق دن میں ان علاقوں کے کوچہ و بازار سنسان دکھائی دیتے ہیں۔ نہ گوشت بانٹنے کی روایت نظر آتی ہے اور نہ سائلوں کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔



 


بقر عید کی صحیح رونق تو ان متوسط طبقے ، دیہاتوں ، قصبوں اور گلی محلوں میں محسوس کی جاسکتی ہے ۔ جہاں سب کے غم کے اور خوشی سانجھے ہوتے ہیں۔ زندگی تغیر و تبدیلی کا نام ہے وقت کے ساتھ روایات اور اقدار میں تبدیلی قانون فطرت بھی ہے ۔ لیکن ہمارے تہواروں کی رونق بچوں کے چہروں سے خوشیوں کی چمک چھننے کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے ۔ جس کے اثرات معاشرے کے ہر طبقے میں محسوس کیے جارہے ہیں۔



قربانی کے جانور کی خریداری اور عید کے لوازمات پورے کرنا ملازمت پیشہ اور کم آمدنی والے افراد کے لیے ایک کوہ گراں ثابت ہورہا ہے ۔ جانوروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے نہ صرف قربانی کے جانوروں کا حصول مشکل کردیا ہے ۔ بلکہ سنت ابراہیمی کی روح کو یوں متاثر   کرنا شروع کردیا ہے ۔ کہ مشکلوں اور بچتوں سے خریدے گئے جانور کو ہم حقداروں کے ساتھ باٹننے سے اجتناب برتنے لگے ہیں۔ کہ ہمارا خاندان اور ہمارے بچے بہر حال ترجیح رکھتے ہیں۔


  


     غریبوں اور حقداروں کا حصہ بھی اپنے فریزروں میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ اور اگر کہیں گوشت بھجوانا بھی مقصود ہوتو اپنے فائدے کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ قارئین کرام ! اس پر آشوب اور مسابقت بھرے دور میں جینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہمارا دین ہمیں زندگی گزارنے کے آسان اور سیدھے راستے سمجھاتا ہے ۔ ہمارے مذہبی تہوار بھی یقینا بے شمار لوازمات اور آئشات کے بغیر بھی بہت اچھے طریقے سے منائے جاسکتے ہیں۔ اور ہم ان کی گم گشتہ خوبصورتیوں اور خوشیوں کو واپس لاسکتے ہیں۔ بشرطیکہ تھوڑی سی ہمت ، برداشت اور قناعت سے کام لے سکتے ہیں۔


 



160