عشق

Posted on at


مصورازل نے جس تصور اول کو آدم کے خمیر میں اپنی سنت کے طور پر ودیعت کیا اسی جزبہ وصل کا قصہ فرقت ہے


جو سب سے پہلے رب واحد سے سر زد ہوا۔اس نے اپنے آپ کو دیکھا اور اپنے آپ پہ عاشق ہو گیا۔ اپنے نور سے زیادہ اسے کوی شے حسین کیسے لگ سکتی تھی۔ تب اس نے کہا


"اللہ جمیل و یحب الجمال"


اللہ حسین ہےاور اپنے حسن سے محبت کرتا ہے۔


اس کا نور جب سراپا میں ظاہر ہوا تو اس نے تمام کائناتوں کے سب سے حسین اور کامل ترین بشر کا لبادہ پہنایا۔پھر اپنے بندوں کو حکم دیا کہ "جو مجھ تک آنا چاہے میرے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عشق کے وسیلے سے مجھ تک آئے"


یہ عشق مجازی کے حکم  کی ابتدا تھی جس کے بغیر عشق حقیقی کا دامن ھاتھ آتا ہی نہیں۔


:عشق


ازل سے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا یہ جزبہ جب جب اپنے رخ سے حجاب سرکاتا ہے، انہونیاں جنم لیتی ہیں۔ مثالیں تخلیق ہوتی ہیں۔ داستانیں بنتی ہیں۔ "عشق" کے اس پس منظر میں بھی اس کے یہ تینوں حروف دمک رہے ہیں۔


یاد رکھئیے۔ اگر محبوب کی خشنودی اور رضا لازم نہ ہوتی تو عاشق اول کبھی نہ فرماتا کہ: "اے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم اگر ہم آپ کی رونمائی نہ چاہتے تو کچھ بھی تخلیق نہ کرتے"۔


اس لئے اس بات کو اپنے جزبوں کے پلو سے باندھ رکھئیے کہ محبوب اول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راضی کیے بغیر محب اول اول وآخر تک پہچنا دیوانے کے خواب سے ذیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنے محبوب کے حسن میں اس نور کی رمق کی تلاش جاری رکھئیے جو آپ کو نور حق کی دمک سے ملوا دے۔ جس دن یہ رمق آپ کی نگاہوں کو خیرہ کر دے گی اس دن آپ کا عشق مجازی آپ کا ہاتھ عشق حقیقی کے ہاتھ میں دے دے گا۔ اور تب آپ پر عشق کے پرت کھلنا شروع ہونگے۔ حجاب سرکاے جائیں گے تجلیاں رخ سے پردہ ہٹائیں گی آنکھیں بینا ہوجائیں گی۔ دل بصیرت آشنا ہوجائے گا۔ لیکن کیا کائنات کا سب سے بڑا راز آپ پر یونہی آشاکارا ہو جائے گا؟ ہر گز نہیں۔ اس کے لئے آپ کو عشق کے عین شین اور قاف کا سفر طے کرنا پڑے گا۔ لوگ آپ کو دیوانہ کہیں۔ آپ کو پتھر ماریں آپ کو کانٹوں پر گھسیٹیں۔ آپ کی کھال کھینچ لیں۔ مگر آپ کے لبوں پر شکایت کا حرف نہ آئے۔ دل میں ملال کا گزر نہ ہو۔ خیال میں پچھتاوے کی پرچھاِئِیں نہ ابھرے۔ بس ہو تو صرف یہ ہو کہ ہونٹوں پر محبوب کا نام سجا رہے۔ پھر عین شین اور قاف کی راہیں آسان ہو جائیں گی۔ تب ان ازلی و ابدی راہوں کے اختتام پر عشق اپنے تینوں حرفوں کی مالا آپ کے گلے میں پہنانے کے لئے آپ کو منتظر ملے گا۔ میں یہ باتیں یونہی نہیں کر رہا۔" عشق کا قاف" میں آپ کو عشق کے عین، شین اور قاف سے آشنا کرانے کے لئے میں نے اپنی راتوں کا دامن جن آنسووں سے بھگویا ہے۔ اپنے احساس کے جس الاو میں پل پل جلا ہوں۔ ان انگارہ لمحوں اور شبنم گھڑیوں کی داستان لکھنے کے لئے خون جگر میں موئے بیان کیسے ڈبویا جاتا ہے۔ اس کا ادراک مجھے ہو چکا ہے۔ آپ بھی اس سے واقف ہو جائیے کہ یہی عشق کی سب سے بڑی دین ہے۔


میری دعا ہے کہ آپ پر بھی عشق کا کوئی ایک حرف ضرور نازل ہو جائے۔ آپ بھی مبتلاوں میں سے ہو جائیں۔ بس پگلا بننے کی کوشش کیجئیے گا۔ سیانا نہ بنئیے گا۔ محبوب نہ بنئیے محب ہو جائیے۔ اسی میں سب نہاں ہے۔ اسی میں سب عیاں ہے۔  


TAGS:


About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160