علاج کی بہتر سہولیات کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہیں

Posted on at


بر سر زمین حقائق یس بات کے شا ید ہیں کہ خیبر پختونخواہ کے سرکاری ہسپتالوں اور دیگر طبی اداروں کی اصلاح اور یہاں مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے اب تک کے اقدامات نا کافی ہیں آبادی کے پھیلاؤ اور بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان نے ہسپتالوں پر بوجھ میں اضافہ کیا ہے اس اضافے کو خدمات کی فراہمی کے لئے کچھ تو وسائل محدود ہیں اور کچھ بد انتظامی اور چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہے اربوں روپے کے اخراجات کے با وجود سرکاری ہسپتالوں کے برآمد وں میں کراہتے مریض چیک اپ اور داخلے کے انتظار میں پڑے نظر آتے ہیں انتہائی تکلیف میں مبتلا مریضوں کو کو شش کے باوجود آپریشن کے لئے داخلہ اوٹی کا ٹائم نہیں ملتا، ہسپتالوں کی حالت گرمیوں میں مزید اذیت ناک ہوجاتی ہے خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں تین بڑے تدریسی ہسپتالوں کو مریضوں کا بہت برا بوجھ اٹھانا پرتا ہے اس بوجھ میں ہزاروں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں ہسپتالوں میں رش اور سروسز کی فراہمی میں تاخیر پر غریب اور متوسط طبقے کے مریضوں کو مجبوراَ نجی کلینکس لیبارٹریوں ،ریڈیالوجی  مراکز اور ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اس مقصد کے لئے اثاثے فروخت کرنے اور قرج اٹھانے کی نوبت بھی آتی ہے نچلے درجے کے سرکاری ملازمین کو علاج کی سہولت صرف سرکاری ہسپتالوں میں حاصل ہے جن کے لئے پرائیویٹ اداروں میں علاج کا بل کئی کئی ماہ کی تنخواہ کے مساوی ہوتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے شعبے میں سب سے پہلے سرکاری طبی اداروں میں سروسز کی فراہمی یقینی بنائی جائے یہاں طبی عملے کی کمی پوری کی جائے ، مشینوں اور لیبارٹریوں کو فنکشنل رکھا جائے او پی ڈی کے اوقات اس انداز سے سیٹ کئے جائیں کہ ڈائیگناسٹک ٹیسٹ کرا کے آنے والے مریض کی رپورٹ دیکھنے کے لئے متعلقہ ڈاکٹر موجود ہو۔ دارالحکومت کے ہسپتالوں پر لوڈ کم کرنے کے لئے اضلاع اور تحصیل کی سطح پر ہسپتالوں میں سہولیات یقینی بنائی جائیں مریضوں اور انکے لواحقین کے ساتھ رویوں کو بہتر بنایا جائے ادویات معیاری دے جائیں جعلی اور دو نمبر دوائی کا رجحان ختم کیا جائی ، اس کے ساتھ نجی سطح پر علاج کے سہولیات کو بھی قاعدے قانون کا پا بند بنایا جا ئے اس مقصد کے لئے ہیلتھ ریگو لیٹری اتھارٹی کو فعال بنانا ہو گا اسکے مینڈیٹ کا دائرہوسیع کرنا ہو گا اس اہم ادارے کو صرف مقررہ فیس وصول کر کے کسی کلینک یا ہیلتھ سروسز کے مرکز کو رجسٹر کرنے تک محدود نہ رکھا جائے یہ ادارہ دستاویزات کی بنیاد پر دی گئی رجسٹریشن کو برسرزمین حقائق کی روشنی میں پرکھے بھی کوئی لیبارٹری اگر ڈاکٹر کے نام پر رجسٹر کی گئی ہے تو اس کا یہاں موجود ےہونا بھی یقینی بنایا جائے نجی شعبے کی سروسز کا معیار اور اس کے تناظر میں چارجز کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے پرائیوٹ سیکٹر کی ہیلتھ سروسز کے لئے خدمات کو نطر انداظ نہیں کیا جا سکتا یہ شعبہ مریضوں کا ایک بہت بڑا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے یہاں کی خدمات سرکاری ہسپتالوں کے مقابلے میں بہتر ہیں اس سیکٹر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انکو قاعدے قانعن کا پا بند بنانا ضروری ہے اس مقصد کے لئے خود اس شعبے سے ماہرین اور حکومتی زمہ داروں پر مشتمل ٹیم بنائی جائے جو صرت حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اصلاح احوال کے لئے سفارشات پیش کرے اس ٹیم کو خود سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں جا کر رپورٹ مرتب کرنے کا پابند بنانا ضروری ہے۔



About the author

ayesha-rehman

I am Ayesha Rehman its enough to describe me..

Subscribe 0
160