میڈیا کے بچوں پر اثرات
کہتے ہیں اگر کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی نوجوان نسل خاص کر بچوں اور بچیوں کو ایسے غلط کام میں لگا دیں کہ وہ اپنے بڑوںسے ہی بدزن ہو جائیں۔ اگر صاف الفاظ میں یہ بات میں کہوں کہ اس کی نئی نسل کو عیاشی کے کاموں میں لگا دیاجائے۔ تو پھر وہ قوم تباہی کی طرف خود چلنے لگے گی۔ یہی آج کی ہماری نئی نسل بھی کررہی ہے۔ ویسے اس میں ان کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ کیوں کہ جیسا انہیں ماحول ملے گا وہ ویسا ہی کریں گے۔ جیسی ان کی پرورش کی جاے گی وہ اس طرف کو جائیں گے۔ ہمارے ملک میں میڈیا اس کام میں اتنا بڑا کردارادا کررہا ہےایسے ایسے پروگرام کاسٹ کیے جاتے ہیں۔ ڈرامے، فلمیں اور گانے تو پھر ہیں ہی۔ جس کو دیکھنے سے کسی بھی بچے کی پرورش اسی طرح ہوگی جس طرح اسے میڈیا دکھائے گا۔
ہر آئے دن ہم پر کوئی نہ کوئی مصیبت ٹوٹ رہی ہے اس کی بڑی وجہ یہی ہے۔ کہ ہمارے بچے ہمارے نئی نسل اپنے اصل راستے سے ہٹ گئی ہے۔ پڑھائی کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ میڈیا نے انہیں اس قدر تیز اور مصروف کر دیا ہے۔ کہ وہ اپنے بڑوں کو جاہل سمجنے لگی ہے۔ اور آج کل سب سے زیادہ شہرت پانے والی سوشل نیٹ ورک فیس بک ہے۔ جو کہ اب ہر جگہ ہی ہر طریقے سے استعمال ہو رہا ہے۔ جس کلاس میں بچوں نے پڑھنا ہوتا ہے اس کلاس میں بیھٹے وہ اپنے موبائل کے زریعے فیس بک استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہر چیز غلط ہے
لیکن اس کا استعمال غلط ہو رہا ہے۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اور وہ کام اسی وقت پر ہی اچھا لگتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میں خبر پڑھ رہا تھا۔ کہ ایک سترہ سال کی جوان لڑکی اپنے گھر سے بھاگنے کی کوشش کررہی تھی۔ گھر میں موجود اس کی ماں نے جب اسے سمجھایا تو اس نے اپنی ماں کو مار ڈالا۔ اور اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی۔
آخر اسے اتنی جرأت کہاں سے ملی ہوگی۔ میرے خیال سے تو سوائے میڈیا کہ اسے اتنی جرأت اور اتنا بڑا کام کرنے کے لیے اور کوئی کہہ نہیں سکتا اور نہ ایسے کام پر لگا سکتا ہے۔ اب بھی اگر میں میڈیا کو برابھلا نہ کہوں تو پھر کب کہوں گا۔ میرے گھر میں موجود میری بہنیں اور مائیں بھی اگر ایسے شوز دیکھیں گی۔ جو میرے لیے باعث شرم ہوں گی تو پھر ان پر کیا اثر ہو گا۔ میڈیا ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ چاہے کہ اپنے منفی پہلو کم سے کم دکھائے۔