پان تاریخ کے جھروکوں میں

Posted on at


پان تاریخ کے جھروکوں میں


موجودہ دور میں پان کا استعمال ایک نشعے کے طور پر کیا جاتا ہے۔  بھارت مین حیدرآباد، دکن ، دیلی میں اور پاکستان میں کراچی،  حیدرآباد ، لاھور میں پان کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں موجود تمباکو اور چھالیہ یا سپاری گلے کے کینسر کا موجب بنتا ہے۔  پان میں جن اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے اس میں چونا، کتھا، سونف، گلقند، کٹا ہوا چھالیہ اور تمباکو ، پان کو ایک پودے کے سبز پتے میں لپیٹ کر دیا جاتا ہے جسے گلوری کہتے ہیں۔ اس کو منہ میں چبا کر کھایا جاتا ہے اس کے چبانے سے ایک سرخ رنگ کا لہاب بنتا ہے جسےتھوکتے رہتے ہیں جو ماحول میں گندگی کا باعث بنتا ہے۔




اصل پان کی تاریخ برصغیر پر مغلیہ دور اقتدار کے دور سے ملتی ہے۔  پان کو ملکہ بیگم نورجہاں جو شہنشاہ جہانگیر کی بیوی بھی تھی پان کو بطور علاج استعمال کرتی تھیں۔  ملکہ سیاسی علم و فراصت و ذہانت میں اپنی مثال آپ تھیں۔  اکثر جہانگیر بادشاہ اہم ملکی امور خانہ جات میں ملکہ سے بھی مشورہ لیتا تھا۔  لیکن بادشاہ سلامت ، اپنی بیگم کے منہ کی بدبو سے بڑا متنفر تھا۔  اس بیماری کے تدراک کے لئے برصغیر کے نامور حکماء کو دربار عالیہ میں مدعو کیا گیا۔  حکماء نے اپنی تدبرانہ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر ایک نسخہ پیش کیا کیونکہ پان کے پودے کا پتہ بھی اس نسخہ میں شامل تھا جو پان کی شہرت کی وجہ بنی۔  پان کو بنانے کے لئے اس وقت جن خاص اجزاء کا استعمال کیا گیا ان میں چھوٹی الائچی جو پیٹ کو نرم رکھتی ہے، دو عدد، لونگ جو خون کو گرم رکھنے اور منہ سے مضر مادوں کا رفع کرتے ہیں اور حاضر دماغی کے لئے فائدہ مند ہے، ایک عدد، چونا یا کیلشیم ، کتھا جو ہونٹوں کی سرخی کے لئے شامل کی گئی، میٹھی لونگ جو دانتوں اور مسوڑوں کی حفاظت کےلئے مفید ہے شامل کی گئی۔ چھالیا چند دانے جو پیٹ کے کیڑے مارنے کے لئے فائدہ مند ہے کو شامل کیا گیا اور سونف اور ناریل جو دماغی قوت کو دوام دیتا ہے ۔




دیکھا جائے تو یہ سارے اجزاء صحت کے لئے مفید تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت نے اسے گھروں سے نکال کر بازاروں اور منڈیوں کی زینت بنا دیا۔  کیونکہ اس وقت اکثر لوگ تمباکو ، حقہ ، چلم کا استعمال کرتے تھے تو پیشہ ور لوگوں اس نئی ایجاد کو مقبول عام کرنے کے لئے اس میں تمباکو کا استعمال شروع کر دیا۔  چھالیہ کی مقدار کو بڑھا دیا جو وقتی ایک نشہ آور شخص کو تسکین تو دے دیتا ہے لیکن صحت کے لئے نہایت خطرناک ہے۔  کیونکہ برصیغیر میں اس کا استعمال ہے جو   گلے کے کینسر کی جان لیوہ بیماری کا سبب بنتا  ہے۔



 


 اس بات میں شک نہیں اگر وہی پان کا نسخہ جو بادشاہ جہانگیر کے دربار میں حکما نے ترتیب دیا اگر دوبارہ اعتدل میں رکھ کراستعمال میں لایا جائے تو منہ کی بیماریوں کا اور جسمانی بیماریوں کا کلہ کمہ کیا جاسکتا ہے ، اور برصغیر کی تاریخی ثقافت کو دوبارہ اجاگر کیا جاسکتا ہے۔



160