اکبر الہٰ آبادی کے حالات زندگی اور ان کی شاعرانہ خصوصیات

Posted on at


اکبر الہٰ آبادی کا اصل نام سید اکبر حسین تھا اور اکبر ان کا تخلص تھا۔ والد کا نام میر تفضل حسین تھا۔ 16 اکتوبر 1884ء کو بمقام بارہ ضلع الہٰ آباد میں پیدا ہوئے۔ مختلف مدارس سے بی و فارسی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ اکبر کے گھرانے کے معاشی حالات چونکہ خراب تھے اس لیے جلد ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ کچھ عرصہ ملازمت کے بعد ترک کر کے قانون پڑھنے لگے۔ مختاری کا امتحان پاس کیااور نائب تحصیلدار کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بچپن ہی سے ذہین و ذکی تھے اس لیے ہر امتحان میں کامیاب ہوتے گئے۔ 1872ء میں جج وکالت کا امتحان پاس کیا اور جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1903 ء میں ملازمت سے کنارہ کش ہو کر علمی مشاغل میں مصروف ہوگئے اور 1921ء میں 75 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ قوم نے انھیں لسان العصر کے نام سے نوازا۔

اکبر الہٰ آبادی کی شاعری کا آغاز بھی اس زمانے کے رواج کے مطابق غزل گوئی سے ہوا۔ چالیس سال تک کی عمر تک وہ معاملات عشق و حسن اور گل و بلبل کی داستانوں کو شاعری کا جامہ پہناتے رہے۔ لیکن یکا یک ان کی طبیعت نے ایسا پلٹا کھایا کہ شاعری کے ذریعے اصلاح معاشرت کا بیڑا اٹھا لیا اکبر کی طبیعت میں یہ تبدیلی اتفاقیہ طور پر پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کے پس منظر میں 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر1886ء تک کے بدلتے ہوئے تمام سیاسی اور معاشرتی حالات تھے۔ جن سے انھیں دوچار ہونا پڑا

یہ وہ دور تھا جب مشرقی تہذیب مغربی سانچوں میں ڈھل رہی تھی۔ برصغیر کے مسلمان سیاسی اور معاشرتی طور پر شاید انتشار کا شکار تھے۔ سر سید احمد خان اور ان کے رفائے کار اصلاحی تحریک لے کر اٹھے تھے اور مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے خلاف تھا۔ وہ اپنی قدیم روش کو بدلنے کے لیے تیار نہ تھا اکبر بھی قدیم تہذیب کے پرستاروں کی صف میں شامل ہوئے۔  ان کا نظریہ یہ تھا کہ اگر سرسید تحریک کو قبول کیا اور مغربی تعلیمکو اپنانے کی کوشش کی گئی تو برصغیر میں مشرقی تہذیب کا رہا سہا سرمایہ بھی لٹ جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے مشرقی تہذیب کے قدیم رنگ کے حق میں آواز اٹھائی۔ انھوں نے ہر نئے نظریے کے خلاف احتجاج کیا مگر اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ وہ مسلم معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار کو برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ وہ مغربی تعلیم نہیں بلکہ مغربی تہذیب سے کنارہ کش رہتے ہوئےخالص اسلامی اقدار کے ساتھ مسلمانوں کی اصلاح چاہتے تھے۔

اس کے لیے انھوں نے طنز و مزاح کے لطیف اور تیکے نشتروں کا سہارا لیا۔ انہوں نے زندگی کے ہر بدلتے ہوئے رجہاں پر طنز کیا ۔ مغرب کے فیشن اور دوسرے شعبوں میں مغرب کی اندھی تقلید ان کے طنز کا نشانہ بنی ۔ انھیں اسلامی معاشرت کے ساتھ کسی دوسری معاشرت کا ٹکراؤ ہر گز گوارہ نہ تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مغربی معاشرت کی شدت سے مخالفت کی یہیں سے ان کے اور سرسید احمد خان کے نظریوں میں اختلاف شروع ہوا۔ سرسید احمد خان اپنی جگہ پر ٹھیک تھے اور اکبر الہٰ آبادی اپنی جگہ پر۔ لیکن مخالف نظریوں کی وجہ سے ان کا آپس میں تھوڑا اختلاف پیدا ہو گیا۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160