ہم کہاں کھڑے ہیں - حصّہ سوئم

Posted on at


ہر گلی اور محلے میں کھلنے والے ٹیوشن سنٹرز کی بھرمار نے تعلیمی حالت کا بیڑا غرق کر دیا ہے . یوں تو دیکھا جاۓ تو پاکستان میں سکول ڈائریکٹریٹ بھی موجود ہیں اور ان کی کاغذات میں اساتذہ کا ایک جم غفیر موجود ہے مگر اصل صورت حال بالکل ہی مختلف ہے حال یہ ہے کہ حکومت کے پرائمری سکولوں کی حالت انتہائی نہ گفتہ بہ ہے وہاں خاک اڑتی ہے اور بعض جگہ تو لوگوں نے سکولوں میں اپنے مویشی باندھے ہوۓ ہیں . کچھ عرصہ پہلے ایک سروے کیا گیا تو انتہائی لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے اور پڑھ کر روح تک لرز اٹھی کہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں بھی  لاہور میں ایسے سکول موجود ہیں جہاں طلبہ پیروں کے بل پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور وہاں ایک استاد دو دو جماعتوں کو پڑھاتا ہے . یہ حال پاکستان کے صوبائی دارلحکومت کا ہے اور اسی سے آپ لوگ اندازہ لگا سکتے ہیں کے ملک کے پسماندہ علاقوں کے طلبہ کا کیا حشر ہوگا اور کیسے حالات میں وہ تعلیم حاصل کرتے ہونگے اور ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوۓ پاکستان کی تعلیمی پسماندگی کا جائزہ لیا جاۓ تو کوئی حیرت کی بات نہیں . دوسرے ملکوں میں اب ابتدائی جماعتوں کے طلبہ کمپیوٹر اور آئ پیڈ سے استفادہ کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی طالب علم آج بھی بھاری بستے اٹھاۓ سکول کو جاتے نظر آتے ہیں . پاکستان کا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہے کیوں کہ پرائیویٹ سکولوں کے بھاری اخراجات برداشت کرنا ان کے لئے نا ممکن ہے اور ان بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے مگر ان کے سیکھنے کا بہترین وقت ضائع ہو رہا ہے اور وہ جہالت کے اندھیروں میں گم ہوتے جا رہے ہیں 



ان بچوں کی تعلیمی تباہی اور پسماندگی کے ذمہ دار ہمارے ارباب اختیار و اقتدار ہیں مگر وہ سب ان باتوں سے بے خبر اپنے لالچ کی تسکین میں مصروف ہیں اور اس سب سے جو خوفناک نتائج نکل رہے ہیں ان سب کی طرف سے بھی آنکھیں موندے ہوۓ ہیں یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں جرائم کی شرح میں روز افزوں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے کیوں کہ یہ نہ خواندہ بچے جب بیروزگاری کا شکار ہوتے ہیں تو اسلحہ تھام کر سڑکوں پر آجاتے ہیں . ایچی سن کالج جیسے کچھ سکول دانش سکول کے نام سے جناب شہباز شریف نے قائم کئے تھے مگر تعلیم کے ماہرین کے خیال میں ان سکولوں کا فائدہ بہت کم اور ان پر خرچ ہونے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں جب کہ ان پیسوں سے سرکاری سکولوں کی حالت زار میں خاصی مثبت بہتری لائی جا سکتی ہے . کسی بھی ملک میں انقلابی تبدیلیوں کو لانے کے لئے اس ملک کا متوسط طبقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر پاکستان میں اسی طبقے کو سڑک کی خاک بنا دیا گیا ہے تو کیسے ہم ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں ؟ اس جرم کی پاداش میں پاکستانی حکمرانوں کو ایک دن جواب دہی کرنا ہی ہوگی 



اسی تصویر کا ایک اور رخ پاکستان میں دینی مدرسوں کا قیام ہے . درمیانی طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کپ ان مدرسوں میں تعلیم کے لئے بھیجتی ہے مگر ان مدرسوں کا نظام تعلیم بھی ویسا ہی فرسودہ ہے جیسا آج سے کافی سال پہلے تھا . عام طور پر ان مدرسوں میں طلبہ کی بہت کثیر تعداد کو پڑھانے کے لئے ایک ہی معلم ہوتا ہے جو ظاہر ہے ان سب پر پوری توجہ نہیں دے پاتا اور حکومت کی طرف سے بھی ان مدرسوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے کوئی خاطر خواہ قدم آج تک نہیں اٹھایا گیا . حالاں کہ جسے دوسرے حکومتی تعلیمی اداروں میں لیپ ٹاپ فراہم کئے گئے ہیں اور اساتذہ کا انتظام کیا گیا ہے یہ قدم یہاں بھی اٹھایا جا سکتا تھا اور اس طرح ان لاکھوں طلبہ کو معاشرے کا ایک مفید شہری بنایا جا سکتا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ فقہی مسلکوں کے قیدی ہی بنے رہتے ہیں


     


**********************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160