اسلام عورتوں کے حقوق کا عَلم بردار

Posted on at


اسلام عورتوں کے حقوق کا عَلم بردار


اسلام ریاست جو مدینہ میں قائم ہو چکی تھی سماجی اور معاشرتی اور معاشی زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ضابطہ کو اخلاق تشکیل دے دیا گیا۔ جدھر اسلام نے رنگ و نسل کے سارے امتیازوں کو ختم کر دیا وہاں پر عورت کو معاشرے میں ایک عظیم مرتبت پر فائز کیا ، آپﷺ کا احسان عظیم ہے  کہ آپ نے عورت کو پستیوں سے نکال کر تمام انسانی حقوق سے نوازہ۔  اسلام سے پہلے عورت کا وجود دنیا میں اکثر ذلت و شرم اور گناہ کا باعث سمجھا جاتا تھا ، یہاں تک کے بیٹی کی پیدائش باپ کے لئے موجب تنگ و عار تھی۔  اس لئے کئی لوگ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے۔ اسلام نے اس قبیح حرکت کی بھرپور مزحمت و مخلافت کیں اور آپﷺ نے نہ صرف اس مذموم رسم کا خاتمہ کیا بلکہ باپ کو بتایا کہ بیٹی کاوجود اور اس کی پرورش اور اس کی حق رسائی تو باپ کوجنت کا مستحق بناتا ہے اور اسی طرح شوہر کو سمجھایا کہ نیک بیوی اس کے لئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہے ، بیٹے کو بتایا کہ خدا اور رسولﷺ کے بعد سب سے زیادہ عزت ، قدرومنزلت اور حسن سلوک کی مستحق اس کی ماں ہے۔ 



اسلام نے ان مندرجہ بالا اخلاقی ہدایات کے ساتھ ساتھ عورت کو قانونی طور پر معاشی حقوق بھی عطا فرمائے۔  وراثت میں عورت کو وسیع حقوق دیئے جو باپ سے ، شوہر سے ، اولاد سے اور قریبی رشتہ داروں سے اس کو وراثت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ شوہر سے اس کو مہر بھی ملتا ہے۔  اس میں ملکیت ، قبضے اور تصرف پر عورت مکمل بااختیار ہے اور کسی دوسرے کو اس کی مرضی کے بغیر کسی قسم کی مداخلت کا حق نہیں۔  اسی طرح دینی اور دنیوی علوم حاصل کرنے کی آزادی دی گئی ہے تا کہ تمدن کی خدمت میں مردوں کے دوش بدوش آزادانہ حصہ لے سکے۔  اسی اسلامی علوم ہی کی بدولت اور تربیت سے ایمان افروز ماؤں نے محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد جیسے ناڈر بہادر، دلیر اور اعلیٰ صفات و اخلاق کے حامل انسانوں کو پیدا کیا جو دنیا میں جلوہ گر ہوئے اور ساری دنیا میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا۔



عورتوں کے ازواجی اور انفرادی حقوق کی حفاظت کا  محسن انسانیت ﷺ کو آخری عمر تک خیال رہا۔  یہی وجہ ہے آپؐ نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا "عورتوں کے مماملہ میں خدا سے ڈرو۔ تمھاری عورتوں پر تم پر حق ہے ان سے نرمی اختیار کرو اور مہربانی سے پیش آؤ"



اسلام ایک بہترین معاشرتی زندگی کا نام ہے اور عورت کے حقوق کی ادائیگی کو اولین ترجیح دی گئی ہے جس پر عمل سے ہمارے معاشرے کو حتی الامکان نفسانی ہیجانات اور تحریکات سے پاک رکھا جاسکتا ہے۔ جو انسان کی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو ایک پاکیزہ اور پرسکون فضا میں نشونما کا موقع دیتا ہے جو تعمیر تمدن میں ایک کلیدی کردار کا حامل ہے۔  اسلامی کی پاکیزہ نظام معاشرت کی حفاظت کے لئے افراد کی باطنی اصلاح کی طرف توجہ دی گئی ہے۔  اسلامی نظام  نے یہ ساری احتیاط معاشرے کو اخلاقی جرائم سے پاک رکھنے کے لئے کی ہیں اور اس کے ساتھ ان اخلاقی جرائم کے مرتکب ہونے والوں کے لئے سخت سزائیں بھی تجویز کی ہیں۔



160