ہم کہاں کھڑے ہیں - حصّہ چہارم

Posted on at


پاکستان کا تعلیمی نظام معصوم ذہنوں پر کیسے منفی اثرات مرتب کر رہا ہے اس کا اندازہ اس دل خراش واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جو کچھ عرصہ پہلے ابیٹ آباد میں پیش آیا . تفصیلات کے مطابق ابیٹ آباد کے پاکستان انٹرنیشنل سکول کے ایک طالب علم جس کا نام مبین تھا ہوسٹل میں اپنے ہی گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر ڈالی . وجہ یہ تھی وہ اپنے استاد کے رویے سے نالاں تھا . اس کے سکول میں اردو بولنا جرم سمجھا جاتا تھا جو طالب علم اس گناہ عظیم کا مرتکب ہوتا اس کو نہ صرف جرمانہ بھرنا پڑتا بلکہ ساتھی طلبہ کے سامنے ذلیل ہو کر کلاس سے باہر بھی جانا پڑتا . مبین نامی اس طالب علم نے بھی یہی جرم کیا تھا اور اس کو استاد نے کلاس سے نکالنے کے ساتھ ساتھ بری طرح زدوکوب بھی کیا . کچا ذہن اس ذلت کو برداشت نہیں کر سکا اور اس نے خود کو پھانسی دے ڈالی . اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ پاپوش نگر کراچی میں بھی پیش آیا تھا جہاں محمد رضا نامی طالب علم نے سکول ٹیسٹ میں فیل ہونے پر والد کی ڈانٹ ڈپٹ سے بچنے کے لئے اس بچے نے بھی خود کو پھندے سے لٹکا لیا اور یوں ایک اور زندگی چند نمبروں کی مقتول بن گئی . اہل پاکستان کے لئے ایسے واقعات نئے نہیں ہر کچھ عرصہ بعد ایسا کوئی نہ کوئی سانحہ اخبار کی سرخیوں میں جگہ حاصل کر کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا رہتا ہے . چند دن ایسی خبروں کی خوب چرچا رہتی ہے مگر بعد میں سبھی لوگ بھول بھال کر اسی ڈگر پر گامزن ہو جاتے ہیں



ایسے واقعات کی ایک بڑی وجہ ہمارا نظام تعلیم اور اس سے جڑا استادوں کا رویہ ہے جو طالب علموں کو ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے . استادوں کے منفی رویے کا شکار ہو کر طالب علموں کی ایک بڑی تعداد یا تو بھاگ جاتی ہے اور تعلیم سے ہمیشہ کے لئے متنفر ہو جاتی ہے اور یا کچھ لوگ ایسے ہی خود کشی کر کے راہ فرار اختیار کرتے ہیں . نظام تعلیم کی انہی کمزوریوں کے ایسے خطرناک نتائج نکل رہے ہیں . پوری دنیا میں تعلیم کا جو نظام رائج ہے وہاں بچے کی تعلیم پر ہی نہیں بلکہ اسکی تربیت پر بھی پوری توجہ دی جاتی ہے انکو زندگی گزرنے کا سلیقہ بھی سکھایا جاتا ہے . بچوں کے نا پختہ ذہن کو اپنے ابتدا کے چند برسوں میں ٧٥ فی صد ٹریننگ اور صرف ٢٥ فی صد تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے .دوسرے ملک اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں لہذا وہاں طریقہ تعلیم بھی ایسا ہی ہے جب کہ پاکستان میں پورے کا پورا زور تعلیم پیر ہی لگا دیا جاتا ہے اور یوں بچے کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے 



سبھی ترقی یافتہ ملکوں میں نظام تعلیم اور نصاب ایک سا ہے وہاں ڈرائیور کا بیٹا ہو یا وزیراعظم کا ان دونوں کو ایک ہی کتاب سے پڑھایا جائے گا اور دونوں ایک ہی طرح کا علم سیکھیں گے. وہاں امتحانات کے لئے بھی ایک ہی دن مقرر ہے اور امتحانات کے نتیجے کے لئے بھی اور وہاں طالب علم کی ذہانت کا تعین اس کے نمبروں سے نہیں بلکہ اس کی صلاحیت سے کیا جاتا ہے اور انہی باتوں کی بنیاد پر بچوں کے مستقبل کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے . ایسے ملکوں میں استاد سے زیادہ وہ لوگ اہم ہوتے ہیں جو بچوں کی تربیت کرتے ہیں .یہ لوگ بچوں کو معاشرے کا اچھا شہری بننے کی تربیت دیتے ہیں . ان لوگوں کا کام یہ ہے کہ روزانہ بچوں کو سکول سے باہر لے کے جائیں اور ان کو اچھی باتوں مثال کے طور ٹریفک سگنلز پر رکنے چلنے ،دوسروں کا احترام کرنے اور اپنے دوستوں کا خیال رکھنے کی تربیت دیتے ہیں 



**********************************************


مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160