حضرت عمر فاروق راضی اللہ حقیقی جمہوریت کے امین

Posted on at


حضرت عمر فاروق راضی اللہ حقیقی جمہوریت کے امین



موجودہ جدید جمہوریت کی بنیاد بلاشبہ امریکی صدرچارج واشنگٹن نے سترویں صدی میں رکھی اور اقتدار و منصب کی اہم ذمہ داریاں عوام کے منتخب نمائنداگان کو ہی سونپی گئی جو عوامی حقوق کی پاسداران تھے۔ ملک کے جغرافیائی سرحدوں اور اندرون انتشار سے بچنے نے کے لئے جمہوری نظام ہی بہترین حل ہے۔  کیوں کہ اس میں عوامی حقوق کا تحفظ اور احترام مقدم ہے۔  جمہوری نظام کی خوبصورتی مساوات  و انصاف  ہے ہر شہری کو برابر کو حقوق حاصل ہوتے ہیں۔


آج سے چودہ سال پہلے ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا جس کا نظام جمہوری اقدار کا آمین تھا۔  جس کی بنیاد عوام کی خلافت اور قرآن و سنت کی حاکمیت پر تھا۔ جس نے علم و سیاست ، مذہب و معاشرت اور زندگی کے ہر شعبہ کو ترقی سے ہمکنار کیا۔   اسلام کی فیاضی سے مستفید ہونے والے غلام بھی حکومتی اعلیٰ مستندوں پر فائز ہوئے ۔



حضرت عمر فاروق رضی اللہ کا دور خلافت دین و اسلام کے عظمت کے ادوار میں کیا جاتا ہے۔  آپ رضی اللہ کی طریقت حکومت عین قرآن کی روشنی میں اور سنت نبوی ﷺ  کے مطابق تھی ۔  آپ نے مذہبی احکام کی روشنی میں ایک عادلانہ اور جمہوری حکومت کی نمو کی جس کی بے مثل بنیاد نبی کریم ﷺ نے ڈالی۔ جس کی نظیر موجودہ دور میں  نہیں ملتی۔  آپ کا دور  بلاشبہ اصلاحات کا دور تھا، عوامی حقوق کا دور تھا، انصاف کا دور تھا ۔  آپ کا طرز حکومت بادشاہت و آمریت کے متضاد تھا۔  مجلس شوریٰ جو آنحضرت ﷺ کے دور  سے آ رہی تھی اس میں مذید اصلاحات کیں۔  اکابرین صحابہ کو اہل رائے کی حثیت حاصل تھی جو شورہ کے ارکین تھے  کوئی بھی حکومتی قدم اٹھانے سے پہلے ان کی رائے ضروری تھی اور احترام واجب تھا۔  موجودہ دور کی مثال میں اس شوریٰ کو کابینہ سےتشبیع دی جاسکتی ہے جس میں حکومت قابل ، ذہین سیاسی اتار چڑاؤ کے ماہر افراد کو چن کر اعلیٰ منصبوں پر براجمان کرتی ہے۔



 


ایک اورعوامی اسمبلی کی تشکیل بھی کی جس کو عامتہ المسلمین کے نام سے منصوب کیا جس میں اسمبلی کے ارکان کو غیر معمولی حالات میں بلایا جاتا۔  بسا اوقات شوریٰ میں پہلے معاملہ پر بحث کر کے پھر اسے عامتہ المسلمین کے آگے رکھا جاتا۔


مورخین نے دو بڑی مثالیں دی ہے جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ کو اپنے دور میں پیش آئیں اور آپ نے باقائدہ شورہ اور عامتہ المسلمین کی مشاورت سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈہ۔


ایک جنگ قادسیہ ہے جس کی کمان خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے سنبھال کر اس جنگ کو لڑنے کا ارادہ کر چکے تھے فوج اور عوام بھی بظاہر راضی تھے مگر جب یہ معاملہ شوریٰ میں پیش ہوا تو شورہ کا متفقہ فیصلہ و مشورہ یہی آیا کہ خلیفہ وقت کو ایسی خطرناک حالت میں خود لڑائی کے لئے نہیں جانا چاہیئے۔  کیونکہ کہ جنگ کا پانسہ دشمن کے حق میں بھی جاسکتا ہے اور ایسے نامساعد حالات میں مزید کمک کی ضرورت پیش آ سکتی ہے جس کا انتظام آپ رضی اللہ تعالیٰ با حسن طریقے سے کر سکتے ہیں۔


مجلس شوریٰ کے تجویزات و دلائل کی روشنی میں آپ رضی اللہ نے اپنا جنگ میں شمولیت کا فیصلہ واپس لیا اور جنگ کی کمان سعد بن ابی وقاص کو سپرد کی۔



عراق و شام کے ممالک کو اسلامی جھنڈے کے سائے تلے لانے کے بعد وہاں کی ذرخیز زمینوں کا معاملہ تھا۔ آیا ان زمینوں کو حکومت اپنے قبضے میں لے یا اصل زمین کے وارثین کے قبضہ میں ہی رہنے دے شورہ کا مشورہ تھا کہ ان سے سالانہ زمینوں کی پیداوار کا  مالیہ لے۔ جس سے زمین کی کاشت و خوشحالی قائم رہے گی اور مالیہ کی رقم حکومت کے لئے مستقل آمدنی کا ذریعہ رہے گی جو حکومتی انتظامی امور اور رفاہ عامہ پر خرچ ہو گی۔  اس مشورے کا فائدہ یہ ہوا اگر حکومت ان زمینوں پر قبضہ کر لیتی جن اصل مالکان صحابہ کبار ہوتے جس سے ایک جاگیرداری نظام کے پیدا ہونے کا امکان ہوتا جس سے آرام طلبی کی زندگی کو تقویت ملتی۔ جس سے اہل عرب منتشر ہو سکتے تھے۔  اس اہم مسئلے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عامتہ المسلمین کو اکٹھا کیا اور ایک متفقہ رائے کے نتیجے میں زرعی زمینوں کو مالکان کے پاس رہنے دیا گیا اور سالانہ جزیہ مقرر کر دیا گیا۔


ملکی انتظامی امور مجلس  شوریٰ کے مشوروں سے تحت پاتے۔ صوبوں کے والی اور دیگر عہدے داروں کا تقرر اور برطرفی، فوج کی تنخوائیں،  نئے انتظامی اداروں کا قیام اور دفاتر کی ترتیب، ٹیکسوں کا نفاذ، غیر قوموں سے تجارتی تعلقات وغیرہ۔ مشاورت کے لئے جب کبھی بھی ضرورت پڑتی تو صوبائی نمائندوں کو بھی شامل کر لیا جاتا اس میں مسلم و غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔



آپ رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی عوام کو مکمل آزادی رائے کا حق دیا ہوا تھا۔  عوام کے اجلاس میں ایک شخص بار بار یہ کہتا تھا اے عمر خدا سے ڈر۔ کسی نے اُسے چپ کرانے کی کوشش کی  تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ نے اسے منع فرمایا اور کہا کہ اگر یہ شخص چپ رہا تو اس کے آنے کا کیا فائدہ۔


آپ رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی خلافت کے دور میں بہت سادہ تھی کوئی دربان اور جپڑاسی نہیں تھا، ہر آدمی بلا روک ٹوک خلیفہ کے سامنے جا سکتا تھا وہ سب کی شکایات و اعتراضات سننے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔  آپ رضی اللہ بھیس بدل کر راتوں کو گلیوں اور محلوں کا چکر لگاتے اور اپنی رعایا کے اصل احوال کی خود خبر گیری کرتے اور ضرورت مندوں کی تکالیف دور کرتے۔


یقیناً آپ کا دور حکومت اصل نظام جمہوریت تھا اور جمہوری اقدار کا عملی نمونہ تھا جو رہتی دنیا کے لئے بطور بہترین مثال پیش کیا جاتا رہے گا۔


 


 



160