ہم کہاں کھڑے ہیں - حصّہ پنجم

Posted on at


ہم اگر غور کریں تو ہم کو دنیا میں صرف تین ہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ہم یہ ساری بھاگ دوڑ کرتے ہیں . یہ ٣ چیزیں خوشی، سکون اور آرام ہیں . دیکھا جاۓ کہ اگر یہ ٣ چیزیں ہماری زندگی کا حصّہ نہ ہوں تو ہماری ساری بھاگ دوڑ اور دنیا کا شور وغا ایک دم سے ختم ہو جاۓ اور ایسا محسوس ہونے لگے گا جیسے کہ ہم پتھر کے زمانے میں واپس لوٹ گئے ہیں مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا سکول ،یونیورسٹی کوئی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں ،کوئی ایک بھی ایسا استاد میسر نہیں جو طالب علموں کو ان ٣ چیزوں کی اہمیت سے روشناس کروائے ان کو خوش ہونے کا طریقہ بتائے .زندگی کی نعمتوں سے کس طرح لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے اس کا سبق پڑھائے . چونکہ ہم سب ان بنیادی باتوں سے واقف ہی نہیں ہیں لہذا پاکستان کی ٩٠ فی صد سے زیادہ آبادی کے چہروں پر آپ کو وحشت کے اثار نظر آئیں گے.  آپ کبھی بھی بازار چلے جائیں ہر شخص آپ کو دوسرے سے نالاں اور دست و گریبان ہونے کو تیار ملے گا . دنیا سے بیزاری تو شائد پاکستانیوں کو ورثے میں ملی ہے کیوں کہ ہر شخص ہی بیزار نظر آتا ہے اور بالفرض اگر ہم کو کوئی خوشی کا موقع میسر آتا بھی ہے تو ہم اس کو اس طریقے سے مناتے ہیں کہ بے چاری خوشی خود ہی شرمندہ ہو جاتی ہے . ہم لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ خوش ہوا کیسے جاتا ہے اس لئے خوشی کے موقع پر یا تو ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے اور اپنی تسکین کے لئے کسی دوسرے کی زندگی کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں یا ہلڑ مچاتے ہیں اور کچھ نہ ملے تو پانی کی بالٹیاں بھر کر ہی دوسروں پر پھینکنا شروع کر دیتے ہیں اور یہی ہماری خوشی کے اظہار کا طریقہ ہوتا ہے 



ہمارے پورے معاشرے کا نظام ہی خراب ہے یا دوسرے لفظوں میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے . دوسرے لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگا کے کر ہماری انا کو تسکین حاصل ہوتی ہے . اور وجہ یہی ہے کہ یہاں تعلیم کے نظام میں ٹریننگ کا فقدان ہے .  یہاں ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اچھے نمبر ، اچھے گریڈز ہی کسی کی ذہانت کا تعین کرتے ہیں .حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا کیوں کے اچھے نمبر تو کوئی کند ذہن بھی رٹا لگا کر حاصل کر لیتا ہے مگر اصل چیز ذہنی تربیت ہوتی ہے جو رٹا لگا کر حاصل نہیں ہوتی. اس طرح ایسے طالب علم گریڈز تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اپنے مضامین کے بارے میں انکی معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں . اور یوں یہ لوگ عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں . اس کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہمارے یہاں کافی کامن ہے جو کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا رویہ ہے . یہ رویہ طالب علموں کے ساتھ انتہائی سفاکانہ قسم کا ہوتا ہے جو اکثر اوقات طالب علموں کو نفسیاتی امراض کا شکار بھی کر دیتا ہے 



مگر جہاں انتہائی حد تک تاریکی چھائی ہو وہاں چراغ کی معمولی سی لو بھی اجالا کر دیتی ہے . ایسے ہی آج کل دینی مدرسوں میں  جدید علوم کی تدریس کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں داخل ہو رہے ہیں . یہ تبدیلی کافی خوش آئند ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں اور ان مدارس کے طلبہ بورڈ میں پوزیشن بھی حاصل کر رہے ہیں .  ایسے بہت سے مدارس کھل چکے ہیں جہاں میٹرک کا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور کچھ جگہ تو کمپیوٹر کی تعلیم بھی شروع کر دی گئی ہے .  اس لئے ضرورت تو یہ ہے کے ہماری حکومت کو ایسے اداروں کا شکر گزار ہونا چاہیے جو دور دراز کے علاقوں میں بھی علم کی شمع جلائے ہوۓ ہیں اور جس کی توفیق کبھی حکومت کو نہیں ہوئی  



مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 


بلاگ رائیٹر


حماد چودھری



About the author

hammad687412

my name is Hammad...lives in Sahiwal,Punjab,Pakistan....i love to read and write that's why i joined Bitlanders...

Subscribe 0
160