شکایت ہے مجھے یہ رب خداوندان مکتب سے (٢)

Posted on at


اسی ھماری بدقسمتی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اتنی دہائیاں گزر جانے کے باوجود پاکستان میں ووہی نظام ے تعلیم نافذ ہے جو ہمیں انگریزوں سے بطور ورثہ ملا تھا اور جسے انگریزوں نے اپنے استحاری مقاصد کے لیے وضع کیا تھا –اپنی مشہور تعلیمی سفارشات میں لارڈ میکالے نے واضع طور پر یہ کہا تھا کہ ہمارا مقصد ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا ہے ،جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہنی وفکری اعتبار سے انگریز ہوں-

لارڈ میکالےکا تجویز کردہ یہی وہ نظام تعلیم تھا جس کے توسط سے انگریزوں نے ہندوستان ،بلخصوص مسلمانوں کو ان کے مذہب ،روایات اور اقدار سے بیگانہ کیا ،اور ان کے اذہان کو ایسا مفلوج کیا کہ وہ برسوں تک غلامی کی ذلت کو بخوشی برداشت کرتے رہے-اب انگریز تو اپنا استعما ری بوریا بستر لپیٹ کر یھاں سے جا چکا ہے مگر ہم نے اس کے نظام تعلیم کو بدستور سینے سے لگا رکھا ہے-

اور اسی نظام تعلیم کا ثمرہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ھماری غلامانہ ذہنیت میں کوئی تبدیلی نہیں ای –ھمارے ارباب اختیار سے نہ تو ان مقاصد کی طرف توجہ دی،جن کی خاطر پاکستان کا قیام عمل میں لیا گیا اور نہ ان مقاصد کے حوالے سے نظام تعلیم کی بنیادیں از سر نو استوار کرنے کی طرف دیہان کیا-

البتہ انگریزوں سے ملے ہوے نظام تعلیم میں بعض جزوی اور سطحی تبدیلیوں کی خاطر کئی

تعلیمیکمیشن ضرور قائم ہوے –ان کمیشنوں کی طرف سے تعلیمی سفارشات بھی مرتب ہوئیں اور ان سفارشات کی روشنی میں بعض مضامین کے نصاباتمیں تبدیلیاں بھی ہوئیں –مگر نظام تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ وہی رہا جس کی بنیاد انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے لیے رکھی تھی-ہاں اتنا ضرور ہوا کہ "اسلامیات " کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا ہے ،مگر اس کی حثیت بھی یہی ہے کہ:

نئی تعلیم میں بھی مذہبی تعلیم شامل ہے

مگر یوں ہی کہ گویا آب زمزم مے میں داخل ہے



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160