آخرصحافی حامد میر کا قصور کیا ہے ؟

Posted on at



آخر صحافی حامد میر کا قصور کیا ہے ؟ کیا پاکستان میں سچ بولنا،عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اورسوال کرنے کی یہ قمیت چکائی جاتی ہے جو آج حامد میر نے ادا کی ہے۔ گھر سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے ایرپورٹ سے منزل جیو کراچی کا دفاتر تھا لیکن راستے میں دہشت گردوں نے نہتے حامد میر پر گولیاں برسا کر ان کو ہسپتال پہنچا دیا۔ صحافی نہتا روز سچ کے جہاد کے لیے صرف قلم کی طاقت کے ساتھ لیس ہوکر اس لیے گھر سے نکلتا ہے کہ وہ اس بات کو متمنی ہے کہ کسی دن تو پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنا پائے جہاں سب سے پہلے صرف غریب عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائیں اور شب روز صرف وطن عزیز کی ترقی میں صرف ہوں لیکن یہ خواب دیکھنے کی اتنی بڑی سزا کیوں؟حامد میر کون ہے حامد میر ایک جدوجہد کا نام ہے جو اس ملک کے کرپٹ عناصر کے خلاف ہے لیکن وطن دشمن عناصر سے یہ بات برداشت نہیں اور وہ بزدلانہ حملے کرکے حوصلے پست کرنا چاہ رہے ہیں لیکن وہ یہ جانتے نہیں کہ پاکستانی صحافیوں کے حوصلے بلند ہیں۔



جیو اور جنگ گروپ پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ نہیں دو ہزار تیرہ میں شمالی وزیرستان میں جیو کےرپورٹرملک محمد ممتاز کو گولی مار کر قتل کردیا گیا۔دو ہزار تیرہ میں ہی جیو کے پروڈیوسر سالک جعفری انچولی دھماکے میں زخموں کی تاب نا لاتے ہویے چل بسے۔ چھبیس نومبر دو ہزار بارہ کو حامد میر کی گاڑی کے نیچے سے دھماکہ خیز مواد ملا تھا تاہم خوش قسمتی سے وہ اس حملے میں بال بال بچ گے۔اس سے پہلے دو ہزار گیارہ میں جیو کے رپورٹر ولی خان بابرکو کراچی میں ہی نشانہ بنایا گیا اور وہ جانبر نا ہوسکے۔سترہ جون دو ہزار گیارہ میں ہی جیو جنگ گروپ کے انگریزی روزنامے دی نیوز سے تعلق رکھنے والے ٹرینی رپورٹر سیف اللہ خان نے بم دھماکے میں جام شہادت نوش کیا گیا۔دو ہزار دسں میں دی نیوز کے صحافی عمر چیمہ کو اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ دو ہزار نو میں جیو کے ہی موسی خان خیل کو سوات میں بے رحمانہ طریقے سے قتل کردیاگیا۔دو ہزار آٹھ میں جنگ گروپ کے رسالے اخبار جہاں سے تعلق رکھنے والے کالم نویس چشتی مجاہد کو کویٹہ میں گولیوں سے چلھنی کردیا گیا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔اس ہی طرح دو ہزار سات میں روزنامہ جنگ سے تعلق رکھنے والے صحافی زبیر احمد کو میر پور خاص میں موت کی گھاٹ اتار دیاگیا۔




اس کے علاوہ جیو جنگ گروپ کے دفاتر پر معتدد بار حملے ، کارکنان کو لا تعداد دھمکی آمیز کالز جن میں حال ہی میں جیو ٹی وی کے کنٹرولر نیوز انصار علی نقوی ،دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور سنیر صحافی تسنیم نورانی کو ملنے والی دھمکیاں بھی نمایاں ہیں لیکن اس ادارے کے کارکنوں نے اپنا حوصلہ نہ  ہاراور شب و روز عوام الناس کے لیے سچ بولتے رہے اور سچ لکھتے رہے۔ آخر پاکستان کے سب سے بڑے نشریاتی اور اشاعتی ادارے جیو اور جنگ گروپ کا قصور کیا ہے کیا عوام کو آگاہی دینا ان کے لیے آواز اٹھا نا جرم ہے ؟ اسلام ہمیں سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے اور جھوٹ کی آمیزش سے منع کرتا ہے لیکن یہ کون لوگ ہیں جو سچ بولنے والوں سچی خبریں دینے والوں کو معاشرے میں خبر بنا دیتے ہیں۔


بات اگر کریں دو ہزار چودہ کی تو اب تک مختلف اداروں میں کام کرنے والے دو صحافیوں شان ڈاہر اور افضل خواجہ،چار میڈیا کارکنان اور فوٹو گرافر ابرار تنولی کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا یہ صرف اس سال کے پہلے چار ماہ کی صورتحال ہے اور رضا رومی کے بعد اب حامد میر کو قاتلانہ حملے میں نشانہ بنا کرآزاد میڈیا کی آواز کو مسلسل دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔



پاکستان میں اب تک چوہتر صحافی اپنے فرض کی اداییگی میں اپنی جان سے ہاتھ گنوا بیٹھے ہیں اور آج تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں سنائی گئی۔ صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے)کے مطابق صحافیوں کے لیے پاکستان دنیا کا پانچواں خطرناک ملک ہے۔عوامل چاہے کچھ بھی ہوں جرنلسٹ کلنگ کے پیچھے دہشت گرد ہوں یا خفیہ ہاتھ لیکن آج تک کسی بھی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہوئی سوائے   ولی خان بابر کیس میں وہ بھی صرف اس لیے کہ جیو اور جنگ گروپ نے انصاف کے حصول کی لڑائی  بلا تعطل جاری رکھی اور اپنے مرحوم ساتھی کے لواحقین کو اکیلا نا چھوڑا۔



حکومت پاکستان کا موجودہ حالات میں فرض بنتا ہے کہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں اور اغواء4 کے واقعات کی مکمل اور جامع تحقیقات کرائے اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لائے کیونکہ ورثا  اور صحافی برادری انصاف کے لئے منتظر ہے۔



عارف خان ہو یا مصری خان ،ابرار تنولی ہو یا افضل خواجہ،شان ڈاہر ہوں یا موسی خیل ہوں یا چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان ہوں یا عامر نواب ، مکرم خان ہو، راجہ اسد حمید ، فضل وہاب ہوں یا صلاح الدین، غلام رسول ہوں یا عبد الرزاق ،محمد ابراہیم ، ساجد تنولی ہوں یا شاہد سومرو یا لالہ حمید بلوچ ہوں یہ تمام صحافی صرف حق کی راہ کے شہید ہیں۔اگر ان تما م جان سے جانے والے صحافیوں کے قتل کی تحقیقات موثر طریقے سے ہوتی تو آج حامد میر پر قاتلانہ حملہ نا ہوتا۔میری دعا ہے اللہ اس سچ کی راہ کی سپاہی کو صحت کاملہ عطا


 !! کرے۔ آمین



 



About the author

SalmaAnnex

Haripur, Pakistan

Subscribe 0
160