پاکستان جب ١٩٤٧ میں معرض وجود میں آیا تو اس وقت مملکت کو ایک مکمل تعلیمی نظام کی ضرورت تھی کیوں کہ بنا تعلیم کے ظاہر ہے ترقی ممکن نہیں لہذا نومبر ١٩٤٧ میں پاکستان کی حکومت نے ایک تعلیمی کانفرنس منعقد کی جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے حالات کا جائزہ لے اور ایک مناسب تعلیمی نظام پورے ملک میں رائج کرے مگر اس وقت چونکہ حکومت نئی نئی قائم ہوئی تھی ہر طرف نفسا نفسی کا دور دورہ تھا اس لئے اس کانفرنس سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا مگر پھر بھی ایک بورڈ تشکیل دیا گیا جس کا کام یہ تھا کہ اس بات پر غور کرے کے پاکستان میں نظریاتی تعلیم کس بنیاد پر فراہم کی جاۓ گی . چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں نظریاتی تعلیم کی اساس اسلام پر منحصر کرے گی یعنی تعلیم کے نظام میں صوبائیت کی بجاۓ اسلامی نظریات کو فروغ دیا جاۓ . غور کریں تو ہم کو یہ بات نہایت خوش کن معلوم ہوگی کہ تعلیم کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی گئی مگر دوسری طرف اس چیز سے صوبوں کا انفرادی تشخص کافی حد تک مجروح ہوا اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا خمیازہ ہم پاکستانی آج تک بھگت رہے ہیں . آج کوئی سندھی ہے کوئی بلوچی کوئی پنجابی مگر پاکستانی ایک بھی نہیں ہے . انہی چیزوں کے نتیجے میں ١٩٧١ میں پاکستان کو ایک عظیم نقصان اٹھانا پڑا جب پاکستان کا مشرقی حصّہ بنگالیوں کا علیحدہ وطن بن گیا . سقوط ڈھاکہ ہماری پیشانی پر ایک ایسا داغ ہے جس کو ہم چاہ کر بھی مٹا نہیں سکتے
اگر چہ قائد اعظم ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ پاکستان میں مذھبی نہیں بلکہ جمہوری حکومت قائم ہوگی مگر قیام پاکستان کے بعد وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے مذھب کو تعلیم میں گھسیڑ دیا اور اس کے نتائج نہایت ہی خوفناک نکلے . اس بات سے ان کا مقصد قومیتوں کی شناخت ختم کر کے نظریاتی اساس کو فروغ دینا تھا . حالاں کہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ پاکستان میں جو بہت سی قومیں آباد ہیں ان کا تشخص بھی مجروح نہ ہو اور وہ سب پاکستان کے جھنڈے تلے جمع بھی ہو جائیں اور پاکستانی قوم کہلائیں مگر کیا کیا جاۓ پاکستانی قوم کی بد قسمتی کا کہ یہاں کے کرتا دھرتا ہمیشہ ہی ایسے لوگ رہے ہیں جو قوموں کے ارتقا کے طریقہ سے واقف ہی نہیں تھے اس لئے اس سب بندر بانٹ کا نتیجہ یہ نکلا کے کوئی مہاجر بن گیا کوئی سندھی اور کوئی پختون اور یوں قوموں کے انفرادی تشخص کو بچاتے بچاتے اپنا قومی تشخص ہی گنوا بیٹھے
ہمارے حکمرانوں کا مقصد ان سب قوموں کو توڑ مروڑ ایک قوم کی تشکیل دینا تھا مگر جب مقصد یہ ہو تو اس سے کبھی بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے اس چیز سے قوموں کا انفرادی تشخص یقینی طور پر مجروح ہوتا ہے اور زندہ قومیں کبھی بھی اس بات کے لئے تیار نہیں ہوتیں کہ ان کا اس طرح سے استحصال کیا جاۓ . کسی بھی وفاق میں اقوام تبھی متحد رہ پائیں گی جب ان کا اپنا ایک منفرد مقام ہو . انہی سب چیزوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے تعلیمی کمی ، دہشت گردی ،لوڈ شیڈنگ ایسے کون کون سے مسائل ہیں جن کا سامنا پاکستان کو نہیں . مگر ان سب میں سب سے بڑا اور بنیادی مسلہ تعلیم کا فقدان ہے . سبھی ترقی یافتہ ملک ترقی کی نئی منازل سر کر رہے ہیں اور پاکستان ہے کہ پستی میں ہی گرتا جا رہا ہے . ہر سال پاکستان سے ہزاروں طلبہ دوسرے ملکوں کا رخ کرتے ہیں مگر کیا کبھی ہم نے یہ بھی سوچا ہے کے دوسرے ملکوں سے کتنے کی طلبہ ہیں جو پاکستان آتے ہیں . یقینی طور پر ان کی شرح باہر جانے والوں سے کہیں کم ہوگی .ضرورت ہے اس بات کی کہ ہمارے اپنے ملک میں ایسی سہولتیں پیدا کیا جائیں کے پاکستانی طالب علم اپنے ملک میں ہی رہتے ہوۓ اعلی تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کو دوسروں کو محتاج نہ ہونا پڑے
*************************************
مزید دلچسپ اور معلوماتی بلاگز پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
بلاگ رائیٹر